(گزشتہ سے پیوستہ)
ہماری کوئی بھی کورٹ آخر کس بنیاد پر کسی کو یہ کہہ سکتی ہے کہ آپ تو حنفی الفقہ ہیں آپ یہ بات کیوں کہہ رہے ہیں۔کوئی حنفی الفقہ ہے شافعی ہے یا جعفری ،ریاست کا کوئی کام نہیں کہ اس نوع کی تفریق پر قوانین بنائےاورقوم میں مزیدتقسیم و انتشار بڑھائے۔اس تضادستان میں آپ لوگوں نے جتنے بھی قوانین مذہبی،نسلی یا جنسی امتیازات پر استوار کررکھے ہیں یہ قومی و انسانی یک جہتی کیلئے زہر ہیں ان کا خاتمہ فرمائیں۔فرقوں کے حقوق سماجی سطح پر اپنے اپنے دائرہ ء کار کے اندر رہناچاہئیں تو بے شک رہیں لیکن ملکی و قومی یا ریاستی سطح پر تمام قوانین سازی ایسی تمامتر تنگناوُں سے مبرا پاکیزہ و بلند و بالا ہو، یونیورسل فنڈامینٹل رائٹس کے عین مطابق جو آئین کی منسوخی پر بھی منسوخ نہیں ہو سکتے۔الحمدللہ 1961 میں ہمارے جو عائلی قوانین تشکیل پائے ہیں جنہیں آئینی تحفظ حاصل ہے ان کی بنیاد اسی اصول پر استوار ہے البتہ ان میں جو جنسی و صنفی امتیازات پائے جاتے ہیں اکیسویں صدی کےبڑھتے ہوئے شعور کا تقاضا ہے کہ پارلیمنٹ کے علاوہ سپریم جوڈیشری ایسے تمامتر امتیازات کی انسانی مساوات کے آئینی و یونیورسل اصولوں پر درستی فرمائے اور اس نوع کے کسی بھی افتراق سے باز رہیں جن کی اول و آخر ذمہ داری ہی یہ ہے کہ وہ بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے سوسائٹی کے کمزور طبقات عورتوں،اقلیتوں اور بچوں کے حقوق کا سہارا بنیں۔کسی کی فقہ یا فرقہ کیا ہے؟یہ اس فرد اور اس کے فرقے کا باہمی معاملہ ہے ریاست کو کسی بھی قیمت پر اس سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے وہ مائی باپ بن کر اپنے تمام بچوں کو ایک نظر سے دیکھے ،اگر کوئی شریر یا تگڑا بچہ دوسرے کمزور یا لاچار بچے پر حاوی ہونے کی کوشش کرے تو ریاست مائی باپ کی حیثیت سے اس کی گوشمالی کرے اور کمزور بچے کو سینے سے لگائے ۔’’مسئلہ عدت ہے یا نکاح کے اوپر نکاح؟‘‘کے عنوان سے درویش کے آرٹیکل کی پہلی قسط ہمارے اخبار جنگ میں شائع ہوئی تو مولانا مودودی کے فرزند سید حیدر فاروق مودودی کا فون آیا کہ آپ نے عدت کے حوالے سے جو وضاحت فرمائی ہے قابِل تحسین ہے بلکہ آپ مزید واضح فرمادیجیے کہ آج کے دور میں جب میڈیکل سائنس میں اتنی ترقی ہوچکی ہےکہ الٹرا ساوُنڈ کے ذریعے لمحے بھر میں یہ واضح ہوجاتا ہے کہ فلاں عورت حاملہ ہے یا غیرحاملہ ۔اور عدت تو رکھی ہی اس مقصد کے تحت گئی تھی تاکہ وضع حمل میں کوئی الجھاؤ نہ رہے بچے کی ولدیت کا کوئی ایشو پیدا نہ ہو۔اس پر درویش نے حیدر شاہ جی کو اپنی خالہ محترمہ سرداراں بی بی کا واقعہ سنایا جو بوڑھی تھیں اور ان کا خاوند فوت ہوگیا وہ بیچاری منہ اور سر ڈھانپے پچھلے کمرے کے ایک گوشے میں پڑی رہتی تھیں کہ کوئی غیر محرم دکھائی نہ دے اور نہ وہ کسی سے بات کریں۔یہ درویش گاؤں گیا تو شدت پسندی کی صورتحال دیکھ کر رنجیدہ ہوا اور انھیں مولوی صاحب کے لاگو کردہ حبس بیجا سے نجات دلائی ،یہ کہتے ہوئے کہ ماں جی خالوجی کے گزر جانے کے بعد کیا آپ نے اب کوئی نئی شادی کرنی ہے؟وہ بیچاری شرمندہ سی ہوکر توبہ توبہ کرنے لگیں۔ان کے سر سے یہ کہتے ہوئےچادرہٹائی کہ ماں جی جب سر کے بال سفید ہوجائیں تو انہیں اس گرمی میں چادروں کی محتاجی نہیں رہتی آپ انھیںہوا لگنے دیں اور باہر آکر سب کے بیچ بیٹھیں سوگ دل میں ہوتا ہےآپ کا میاں کھاہنڈا کر گیا ہے،جوزندہ ہیں آپ ان کی خوشیوں میں شامل ہوں یہ کوئی ایک واقعہ نہیں ہےآپ میں سے اکثر خواتین و حضرات نے اپنی فیملیز میں اس نوع کی صورتحال ملاحظہ کی ہوگی بالخصوص ہماری رورل لائف میں۔معروف ریسرچ سکالر محترم ڈاکٹرخالد مسعود صاحب اسلامی نظریاتی کونسل کے پروقار چیئرمین رہے ، آپ کے ساتھ برسوں سے ایسی قربت ہے کہ تقریباََ ہر ایشو پر ڈسکشن چلتی رہتی ہے محترم ڈاکٹر جاوید اقبال کی طرح آپ کھل کر بولتے ہیں لیکن انہی کی طرح گفتگو کے ساتھ یہ شرط عمومی ہوتی ہے کہ یہ باتیں صرف آپ کیلئے ہیں پبلک کیلئے نہیں کیونکہ ہر دوشخصیات یہ کہتی سنائی دیں کہ اس ملک میں آزادئ اظہار مفقود بنادی گئی ہے یہاں جہل اس قدر حاوی ہوچکا ہے کہ شعور کو سرچھپانے کیلئے جگہ نہیں مل رہی۔ناچیز کی اوائل عمری سے یہ عادت سی بن گئی ہے کہ وہ اپنے مطالعہ و مشاہدہ سے جس نئی دریافت یا سچائی تک پہنچے وہ اپنے ان اہل علم احباب سے ضرور شیئر کرتا ہےاور اکثر بات سے مکالمے تک چلی جاتی ہے۔ حال ہی میں ڈاکٹر صاحب محترم سے شاہ بانو کیس میں نان و نفقہ سے لے کر عدت اورٹرپل طلاقوں کے ایشوز تک بھرپور گفتگو ہوئی بچ بچا کر عرض کیا کہ تین طلاقیں یکبارگی لاگو کرنے پر احناف نے جو مئوقف اپنا رکھا ہے اس پر ڈاکٹر صاحب کا استدلال خوب تھا کہ اپنی اس سخت توجیہ کے باوجود احناف اُسے ہمیشہ طلاق بدعت ہی قرار دیتے ہیں یہ الگ بحث ہے کہ بدعت حسنہ اوربدعت سیئہ کی تحضیص کرلی جاتی ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ یہاں مذہبی مباحث و تحقیقات کو سیاسی مفادات کے تابع کردیا گیا ہے، عدت کا شوشہ بھی کچھ اسی نوعیت کا ہے حالانکہ اس حوالے سے عورت کا اپنا بیان ہی کافی گردانا گیا ہے۔1961کے فیملی لاز کو بھی اگر ضیاءالحق آئینیِ تحفظ نہ دلا پاتے تو ان کا بھی تیاپانچا کر دیاجاتا۔اس وقت ہمارے بعض علماء کے پاس سوائے علم کے شاید باقی سب کچھ ہے ۔اس حوالے سےڈاکٹر صاحب نے ایک نامور حضرت صاحب کا واقعہ سنایا جنہیں بیرون ملک ایک بین الاقوامی مذہبی کانفرنس میں، بین المذاہب ہم آہنگی کے تقاضوں پر اظہار خیال کی دعوت دی گئی تو وہ سورہ الفاتحہ پڑھ کر اپنی نشست پر بیٹھ گئے ،یوں جن ایشوز پر ضرورت کھلے مباحثوں اور مکالموں کی تھی ان پر لب کشائی کرنا بھی خوفناک بنا دیا گیا ہے۔
مزید خبریں
-
عالمی دہشت گردنیتن یاہو جس تواتر کے ساتھ مسلمانوں کا خون بہا رہا ہےعالمی برادری کی خاموشی اس کو مزید حوصلہ دے...
-
برطانیہ میں14برس حکمرانی کرنے والی ٹوری کی حکومت نے امیگریشن کو کنٹرول کرنے کے لئے جہاں بہت سی پابندیوں پر عمل...
-
تحریک انصاف کی طرف سے 15اکتوبر کو ڈی چوک اسلام آباد میں احتجاج کی کال دینے کو اگر پاکستان دشمنی نہیں تو اور...
-
نہ ظاہر ہو رہی ہے سمتِ منزل نہ گُمراہی سے پردہ ہٹ رہا ہےیہاں اِس روشنی کے دور میں بھی اندھیرے کا تبرّک بٹ رہا ہے
-
درجات ……مبشر علی زیدیچند دن پہلے مجھے اندازہ ہوا کہ غربت کس درجے کو پہنچ چکی ہے۔میں نے دیکھا کہ ایک ملازم...
-
اس کائنات و زمین پر اس سے بڑھ کر جہالت اور حماقت کوئی نہیں کہ سوائے پیغمبروں کے ، پاک ہستیوں کے کوئی انسان...
-
پاکستان دنیا میں وہ واحد ملک ہے جہاں انکم ٹیکس نظام میں نان فائلرز یعنی ٹیکس نادہندگان کیٹگری پائی جاتی ہے جو...
-
یقیناً جب کبھی ریاست نے فرد کی جبر کے خلاف کی گئی بات سنی ان سنی کی ہوگی ، حقوق کی پامالی پر فضا کو چیرتی چیخ کو...