آئی پی پیز، مسئلے کا حل کیا ؟

چوہدری سلامت علی
25 جولائی ، 2024
پاکستان میں گزشتہ چند عشروں کے دوران بجلی کے بحران پر قابو پانے کے نام پر بجلی بنانے کے جو کارخانے لگائے گئے وہ اب قوم کے گلے کی ہڈی بن چکے ہیں۔ ایک طرف ان انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کو’’کیپسٹی پیمنٹس‘‘کے نام پر کی جانے والی ادائیگیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور دوسری طرف بجلی کی قیمت میں بے تحاشہ اضافے کی وجہ سے انڈسٹری بند اور عام آدمی کی زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ کیپسٹی چارجز کی مد میں سرکاری آئی پی پیز کو بھی کھربوں روپے کی اضافی ادائیگیاں کی جا رہی ہیں۔ سابق وفاقی وزیر تجارت ڈاکٹر گوہر اعجاز کے مطابق 45 فیصد کیپسٹی چارجز سرکاری آئی پی پیز لے جاتے ہیں۔ اسی طرح کوئلے پر چلنے والے آئی پی پیز 25 فیصد جبکہ ونڈ اور آر ایل این جی پر چلنے والے پاور پلانٹ اپنی صلاحیت سے 50 فیصد سے کم بجلی پیدا کرنے کے باوجود سو فیصد پیداوار کے مساوی کیپسٹی چارجز وصول کر رہے ہیں۔
اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ جب سے حکومت نے ان آئی پی پیز سے معاہدے کئے ہیں کوئی ایک پاور پلانٹ بھی ایک دن کیلئے اپنے پوری استعداد کے مطابق بجلی پیدا نہیں کر سکا ۔ اس طرح یہ آئی پی پیز وہ جونکیں بن چکی ہیں جو اندر ہی اندر قومی معیشت کو کھوکھلا کرتی جا رہی ہیں۔ واضح رہے کہ کپیسٹی چارجز میں آئی پی پیز کو ان کی غیر استعمال شدہ بجلی کے لگ بھگ 50 فیصد حصے کی لاگت کے برابر ادائیگی کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اس رقم میں ان کے بینک قرض کی ادائیگی اور دیگر مالی اخراجات، مقررہ آپریشنل اخراجات اور ان کا منافع بھی شامل ہوتا ہے جو پاور پالیسی کے مطابق نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے طے کردہ ٹیرف میں شامل ہوتا ہے۔ اس حوالے سے نیپرا نے تخمینہ لگایا ہے کہ رواں مالی سال 25-2024میں بجلی کی کھپت میں کم از کم 3 فیصد اضافہ ہو گا اور مجموعی طور پر 130 ارب یونٹس بجلی پیدا ہو گی۔ نیپرا کے مطابق ان 130 ارب یونٹس کی پیداوار، خرید، صارفین تک ترسیل اور دیگر مدوں میں آنے والی مجموعی لاگت تقریباً 3227 ارب روپے ہو گی۔
اس میں سے161ارب روپے بجلی کی لاگت بشمول ایندھن اور آپریشن و دیکھ بھال پر خرچ ہوں گے اور بقیہ116 ارب روپے کپیسٹی چارجز کی مد میں ادا کئے جائیں گے۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو بجلی کی اصل لاگت اعلان شدہ ٹوٹل پاور پرچیز پرائس کا 35 فیصد بنتی ہے جبکہ بقیہ 65 فیصد رقم کیپسٹی چارجز کی مد میں ادا کئے جائینگے۔ اس حوالے سے مزید اہم بات یہ ہے کہ بجلی کی اصل لاگت کو بہتر مینجمنٹ اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی کارکردگی یا ایفیشنسی بہتر بنا کر مزید کم کیا جا سکتا ہے۔ نیپرا کے اپنے اندازوں کے مطابق بجلی کی ترسیل میں ہونے والے نقصانات کو شامل کیے بغیر بجلی کی متوقع پیداوار کی لاگت نکالی جائے تو فی یونٹ پاور پرچیز پرائس 27.35روپے بنے گی جس میں پیدا ہونے والی بجلی کی لاگت 9.69روپے فی یونٹ اور کپسٹی چارجز کی لاگت 17.66 روپے فی یونٹ ہو گی۔ اس سلسلے میں نیپرا نے مالی سال 25-2024ء کیلئے اوسط قومی پاور پرچیز پرائس 27 روپے فی یونٹ مقرر کی ہے۔
تاہم اس میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے بجلی کی ترسیل اور ریکوری کے نقصانات کی ایڈجسٹمنٹ کے بعد فی یونٹ بجلی کی اوسط قومی قیمت 35.50روپے بنتی ہے جس میں 18 فیصد جنرل سیلز ٹیکس شامل کرکے فی یونٹ قیمت 42 روپے بنتی ہے۔ اس قیمت میں 580 ارب روپے کے دیگر ٹیکسز، ڈیوٹیز، سرچارجز، لیویز، ماہانہ اور سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی شمولیت کے بعد اگلے مالی سال بجلی کی فی یونٹ قیمت 65 سے 72 روپے رہنے کا امکان ہے۔ بجلی کی قیمت میں اضافہ قومی معیشت کو کس طرح نقصان پہنچا رہا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ مالی سال میں صارفین سے 477 ارب روپے اضافی وصول کئے گئے تھے جبکہ پچھلے مالی سال 23-2022ءمیں صارفین سے 893ارب روپے کی اضافی رقم وصول کی گئی تھی۔
نئے مالی سال 25-2024ءمیں بجلی کے قومی ٹیرف میں 5.72 روپے فی یونٹ اضافے سے ڈسکوز کو 485 ارب روپے کے اضافی محصولات حاصل ہوں گے۔ ڈسٹری بیوشن مارجن کی ایڈجسٹمنٹ شامل کرکے ڈسکوز سال بھر میں تقریباً 3763 ارب روپے اکٹھے کریں گی۔ علاوہ ازیں صارفین کو 18 فیصد فی یونٹ سیلز ٹیکس بھی دینا پڑے گا جبکہ ٹیرف میں دیگر ٹیکسز، ڈیوٹیاں اور سرچارجز شامل کرکے صارفین کو رواں مالی سال میں مجموعی طور پر 580 ارب روپے کا اضافی بوجھ اٹھانا پڑے گا۔ لوگ بجلی کے بل ادا کرنے کے لیے اپنی قیمتی گھریلو اشیاء فروخت کرنے پر مجبور ہیں جبکہ بہت سے مل مالکان نے پیداواری لاگت میں بے تحاشہ اضافے کی وجہ سے ملیں بند کر دی ہیں۔ ایسے میں حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ آنکھیں بند کر کے بجلی کی قیمت میں اضافے کی پالیسی ترک کر ےاور بجلی کی قیمت میں کمی کے لئے اقدامات کرے۔ اس کے لئے پارلیمنٹ سے قانون منظور کروایا جا سکتا ہے کہ حکومت آئی پی پیز کو صرف اس بجلی کی ادائیگی کرے گی جو ان سے خریدی جائےگی۔ اس ایک اقدام سے حکومت کو آئی پی پیز سے معاہدوں پر نظرثانی کے لئے ایک مضبوط بنیاد میسر آ جائے گی۔ تاہم اگر حکومت اور اپوزیشن نے اس اہم قومی مسئلے پر اب بھی چشم پوشی اختیار کئے رکھی تو قوم انہیں یکساں طور پر عوام دشمن تصور کرنے میں حق بجانب ہو گی۔