آئی ایم ایف اور نئی مہنگائی

محمد منصور خان
25 جولائی ، 2024
آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان 7ارب ڈالر قرض پروگرام کا نیا معاہدہ طے پاگیا ہے ۔ قرض پروگرام 37ماہ پر محیط ہوگا ۔ یہ سٹاف لیول اگریمنٹ ہے ۔آئی ایم ایف کے ساتھ حکومت نے جو نیامعاہدہ کیا ہے اسکے بعد تین سال میں ٹیکس ریونیومیں 3724ارب روپے اضافے کی یقین دہانی کروائی گئی ہے ۔ظاہر ہے یہ رقم ملک کے اندر سے ہی اکٹھی ہونی ہے اور ماضی کے واقعات سامنے رکھے جائیں تو یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ یہ بوجھ بھی عوام پر ڈالا جا ئے گا اور اشرفیہ کے مفادات پر زد نہیں پڑنے دی جائیگی۔آئی ایم ایف کے نئے معاہدے کی رو سے اسٹیٹ بینک کو ایکسچینج ریٹ اور زر مبادلہ کے ذخائر کو مستحکم رکھنے ہوگا جس کیلئے وزارت خزانہ کو دوست ممالک سے سافٹ ڈپازٹس رول اوور کرانے ہوں گے جس میں سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں ۔ آئی ایم ایف نے مالی خطرات کو روکنے کیلئے انرجی سیکٹر میں سخت اصلاحات لانے پر زوردیا ہے اور اضافی بجلی پیدا کرنے کے معاہدوں کی حوصلہ شکنی کی ہے جس کے تحت بجلی نہ لینے کی صورت میں بھی حکومت کو اربوں روپے کی کیپسٹی سر چارج ادا کرنا پڑتے ہیں۔ آئی ایم ایف نے سبسڈی اور کراس سبسڈی دینے کی مخالفت کی ہے ۔
پاکستان نے یکم جنوری 2025ء سے زرعی آمدنی پر ٹیکس لگانے کی یقین دہانی کرائی ہے آئی ایم ایف کا اعلامیہ بتاتا ہے کہ مانیٹری پالیسی میں مہنگائی میں کمی پر توجہ مرکوز رکھنا ہوگی، زرمبادلہ کے ذخائر بہتر بنانے کیلئے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو ایک لچکدار شرح مبادلہ کو برقرار رکھناہو گا ، فارن ایکسچینج مارکیٹ کے کام اور زرمبادلہ کے آپر یشنز کے اردگرد شفافیت کو بہتر بناناہوگا ۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں رواں مالی سال معاشی ترقی کی رفتار 3.5فیصد رہنے کا امکان ہے۔ حکومت نے نئے بجٹ میں معاشی ترقی کا ہدف 3.6فیصد مقررکیا ہے۔گزشتہ مالی سال میں پاکستان میں معاشی شرح نمو2فیصد رہی ۔ عالمی معیشت اس سال 3.3فیصد کی شرح سے ترقی کر رہی ہے۔ موڈیز نے پاکستانی معیشت سے متعلق اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ رواں مالی سال پاکستان کی بیرونی فنانسنگ کی ضروریات تقریباً 21ارب ڈالر ہیں ،مالی سال 2026-27ء کےلئے تقریبا ~23ارب ڈالر کی مالی ضروریات درپیش ہیں جبکہ پاکستان کے پاس موجود 9.4ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر اسکی ضروریات سے کافی کم ہیں۔
آئی ایم ایف کے نئے طویل المیعاد پر وگرام کی رو سے پاکستان میں جی ڈی پی میں ٹیکس کی موجودہ 9فیصد شرح کو 3سال میں 1.5فیصد سالانہ شرح سے بڑھا کر 13.5فیصد تک لے جا نا ہوگا، جس کےلئے زراعت ، ایکسپورٹس ، ریٹیل اور رئیل اسٹیٹ سیکٹرز کو نارمل ٹیکس نظام میں لایا گیا ہے ۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جن کے معاشی مسائل میں اس لیے مسلسل اضافہ ہوتا چلاجا رہا ہے کہ وہاں سرکاری خزانے کا ایک بڑا حصہ اشرافیہ ہڑپ کر جاتی ہے ۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کےلئے سب سے پہلے تو اپنے اخراجات میں کمی لائے اور پھر اشرافیہ کو سرکاری خزانے سے دی جانے والی مراعات و سہولیات ختم کرے۔ اس سے اگلا مرحلہ سرمایہ کاری ہے اور قرض صرف اس صورت میں لیا جانا چاہیے جب معاملات کو چلانےکےلئے ہمارے پاس قرض لینے کے سوا اور کوئی چارہ نہ ہو۔
دنیا میں نوجوان آبادی رکھنے والے ممالک کی فہرست میں پہلے نمبر پر پاکستان ہے ، اسکی آبادی کا64فیصد 30سال اور اس سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے۔ اتنی بڑی آبادی کو روزگار مہیا کرنا کسی بھی حکومت کے بس میں نہیں پھر افزائش آبادی کی شرح بھی بہت زیادہ ہے جبکہ معاشی نمو کی کم ترین سطح بھی ایک عظیم مسئلہ ہے۔ بجٹ 25-2024ء میں اشرافیہ کی مراعات برقرار رکھتے ہوئے عام آدمی پر ٹیکسوں کابوجھ ڈالنا کسی صورت مناسب نہیں ۔ بجلی ،گیس ، پٹرولیم مصنوعات اوردیگر ضروریات زندگی کی اشیاء کی قیمتوں میں مسلسل اضافے سے بے چینی بڑھ رہی ہے ۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت فوری طور پر عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے اقدامات کرے۔
(کالم نگار کے نام کےساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)