خان پھر توجہ کا مرکز…؟

راجہ اکبر دادخان
25 جولائی ، 2024

برطانیہ کے اہم اخبارات اور نیوز چینلز آئے دن پاکستان کی سیاست اورمعیشت پر خبریں اورتبصرے کرتے رہتے ہیں۔ ان اداروں کی دلچسپی کے مثبت پہلو عموماً زیادہ اور منفی پہلو کم ہوتے ہیں۔ پاکستان کا ہر سیاستدان چاہتاہے کہ اسے اہم اخبارات اور میگزین کوریج دیتے رہیں کیونکہ the times ، the guardian اور ’’دی ٹیلیگراف‘‘ میں ذکر کو لوگ زندگی کے سفر میں کامیابی کا ضامن سمجھتے ہیں۔ 70 کی دہائی کے نصف میں جاوید برکی کی کپتانی میں پاکستان ٹیسٹ کرکٹ ٹیم نے برطانیہ کا دورہ کیا۔ عمران خان اس ٹیم کا حصہ تھے اوریہ ان کا پہلا بیرون ملک دورہ تھا۔ برطانوی کرکٹ کمنٹیٹرز میں پیٹرویسٹ، جان ارلٹ اور پیٹر شارپ پاکستانی کرکٹ ٹیم کو بذریعہ کمنٹری متعارف کرانے کی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے تھے۔ اس دورہ کا پہلا ٹیسٹ میچ برمنگھم میں ہوا اور ٹیم سلیکشن میں عمران خان کو شامل کرنا کئی مبصرین کی رائے میں ایک دلچسپ فیصلہ تھا۔ لگتا ہے یہاں سے قدرت نے اس کی پرموشن کا فیصلہ اپنے ہاتھ میں لیا ہوا تھا۔ اخبارات نے بھی اس نوجوان بائولر کو خوب تشہیر دی اس طرح یہاں سے پبلیسٹی کا ایک نیا دور شروع ہوا ۔اس دورہ کے دوران ہی خان کو ووسٹر شائرکاؤنٹی نے سائن کرلیا اور اگلے سیزن میں عمران خان نے اچھی پرفارمنس دے کر اپنے کنٹریکٹ کو زیادہ بہتر بنا لیا۔ چند سیزن یہاں کھیلنے کے بعد خان کو لندن کے قریب سسکس کاؤنٹی نے سائن کرلیا۔ یہاں سے خان کے کرکٹ کے اعلیٰ حکام ، شوبزنس سے تعلق رکھنے والے لوگوں اور سماجی اور ثقافتی حوالوں سے اہم شخصیات کے ساتھ تعلق پیدا ہوااور ان میں کئی ایسے تعلق آج بھی موجود ہیں۔ جمائما گولڈسمتھ (جو ماضی میں عمران خان کی بیوی بنیں) کے خاندان سے ان کا تعارف بھی اسی دورانیہ میں ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب وہ جہاںجاتے ان کے مداح انہیں گھیر لیتے تھے۔ لوگوں کی عمران خان کو ہمیشہ گہری پذیرائی حاصل رہی تھی۔ برٹش میڈیا ہمیشہ ان میں مثبت رویوں اور کامن مین کی سوچ کو پرموٹ کرنے میں انکا حامی رہا ہے۔ یا کیا خان وہ اہلیت بدرجہ اتم اپنے اندر سموئے ہوئے ہے کہ وہ اکثر مواقع پر اپنے اور اپنی جماعت کیلئے درست فیصلے کرنے میں کامیاب ہو جاتاہے۔ گزشتہ ایک دھائی میں عمران خان نے بے شمار غلط فیصلے بھی کئے ہیں جن سے اسکو ذاتی اور جماعتی حوالہ سے نقصانات پہنچے ہیں۔ اپنی حکومت گر جانے کے بعد اور جس طریقہ سے اسکو پچھلے دو سال میں ٹارگٹ کیا جا رہا ہے جس طریقہ سے اسکی ازدواجی زندگی کو غلاظت کے بدبودار اور غیر صحتمند پانی میں کھنگالا جا ر ہاہے اور جس طرح نئے کیسز بننے کا تھما ہوا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہو گیا ہے۔ حکومت کے ایسے فیصلوں سے عوام کی بڑی تعداد اتفاق نہیں کرتی۔ تحریک انصاف کے ممبران قومی اور صوبائی اسمبلیاں اپنی جماعت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ حکومت اعلیٰ عدلیہ میں اضافی نشستوں والا کیس ہار کر بہت کچھ مزید کھونے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ غالباً وہ تصادم چاہتے ہیں۔ پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے اعلان پر برطانوی اخبار the times (16 جولائی) کہتا ہے ’’خان کو ڈر ہے کہ اسکی قید کے دوران اسکی جماعت پر پابندی لگا دی جائیگی‘‘ نے اس شہ سرخی کے ساتھ ایک طویل خبر میں خان اور اسکی جماعت کو درپیش مسائل کا ذکر کیا ہے۔ دوسرے اخبارات نے بھی اس مجوزہ پابندی کا ذکر کیا ہے۔ پاکستان اور دنیا بھر میں پابندی پر تنقید کے بعد حکومت نے اب مان لیا ہے کہ انہیں اس معاملہ پر حکومتی اتحادیوں سے مشورہ کی ضرورت ہے۔ اب فیصلہ مشاورت کے بعد ہوگا۔ حکومت آج کل بوکھلاہٹ میں اکثر فیصلے ایسے کر رہی ہے جیسے کہ وہ چاہتی ہو کہ اس کا کسی آئینی ادارہ کے ساتھ ٹکرائو ہو جائے۔ عمران خان نے جب تک کرکٹ کھیلی وہ اس کھیل کے ایک اہم کردار کے طور پر میڈیا کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔ انگلینڈ کے مشہور بائولرایان بوتھم سے ہائیکورٹ میں مقدمہ جیت لینا اور کرکٹ میں تیسرے ایمپائر مقرر کئے جانے کے حوالے سے انکی قائدانہ کردار سے دنیا بھر کے لوگ واقف ہیں۔ انہی قائدانہ صلاحیتوں کی بنا پر پبلیسٹی ہمیشہ انکا تعاقب کرتے ملتی ہے۔ 16 جولائی کی ٹائمز رپورٹ کہتی ہے کہ حکومت پاکستان عمران خان کی پارٹی پر پابندی لگانے کی کوششوں کو دوبارہ شروع کر رہی ہے اور خان جو سابق وزیر اعظم ہیں کئی اہم عدالتی فیصلوں کے باوجود جو ان کے حق میں ہیں جیل سے رہائی نہیں مل سکی۔ عالمی شہرت کے حامل اس سابق وزیراعظم اور کرکٹر کو اونچے درجہ کی سیکورٹی جیل میں پچھلے اگست سے رکھا جا رہا ہے ۔ گزشتہ انتخابات میں اسکی جماعت (پی ٹی آئی) کے کئی ارکان کو حصہ نہیں لینے دیا گیا۔ اس دوران کرپشن اور غیرقانونی شادی کے کیسز میں اسکو سزا دی جا چکی ہے (نکاح) کیس میں یہ سزا اب ختم کر دی گئی ہے)۔ وزیراطلاعات کے مطابق pti پر مستقل پابندی لگا دینے کیلئے عدالت سے رجوع کیا جائے گا۔ اور ہم اس کیس پر مضبوطی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ خان عوام کے درمیان مقبول ہیں ۔ سپریم کورٹ کے ایک حالیہ فیصلہ میں انکی جماعت کومزید نشستیں مل چکی ہیں اور خان کی عدالتی سزائیں ایک حد تک رول بیک ہو چکی ہیں۔ مگر خان پر نئے مقدمات قائم کر دیئے گئے ہیں اور وہ بدستور جیل میں ہیں۔خان عوام میں مقبول ہے اور اس کے حامیوں کی رائے میں اسے سیاسی دشمنی کی بنا پر یہ سزائیں مل رہی ہیں خان کے ایک ایڈوائر ذوالفقار بخاری کے مطابق (پابندی لگانے والا معاملہ) شریف کی کمزور اتحادی حکومت کا یہ فیصلہ ’’نرم مارشل لاء‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ پی ٹی آئی کو غیرقانونی جماعت کہنے کیلئے حکومت پی ٹی آئی کی امریکہ کو لابنگ کرکے حامی بنانے کی کوشیں اور آئی ایم ایف کو خط کے حکومتی منصوبہ جات کی جانچ پڑتال کے مطالبات ہیں۔ حکومت پی ٹی آئی پر پابندی لگوانا چاہتی ہے مگر حکومت کامیاب ہوتی نظر نہیں آتی۔