خواہش ہے جب بھی مارشل لاء کا خطرہ ہو عدالتیں کھلی ہوں ، جسٹس اطہر من اللہ

25 جولائی ، 2024

اسلام آبا د(ایجنسیاں)سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ خواہش ہے جب بھی مارشل لاء کا خطرہ ہو عدالتیں کھلی ہوئی ہوں، جنہیں میری عدالت کے علاوہ کہیں سے بھی ریلیف نہیں ملتا تھا آج وہ بھی میرے خلاف پروپیگنڈا کر رہے ہیں، 2022 میں جو میرے خلاف پروپیگنڈا کر رہے تھے اب وہ تبدیل ہوگئے ہیں میں چاہتا ہوں جب بھی مارشل لاء کا خطرہ ہو عدالتیں کھلی ہوئی ہوں کاش عدالتیں 5 جولائی کو بھی کھلی ہوتیں جب ضیاء نے منتخب وزیراعظم کو ہٹایا تھا، کاش عدالتیں 12 اکتوبر 1999ء کو کھلی ہوتیں جب مشرف نے منتخب وزیراعظم کو باہر پھینکا ،وکلا تحریک کے بحال ہونے والے ججوں نے نوجوان نسل کو بہت مایوس کیا، یہ ججوں کی بحالی کی نہیں آئین کی بحالی کی تحریک تھی ۔ امریکا میں نیو یارک بار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہائبرڈ نظام حکومت اور جمہوری نظامِ حکومت میں عدلیہ کی آزادی کا الگ الگ تصور ہے، ججوں کی تعیناتی میں مجھے ایک جج کو منانے میں تین اور دوسرے جج کو منانے میں دو سال لگے ان ججوں پر کسی کو اعتراض نہ تھا مگر پورا نظام اِن سے خوفزدہ تھا اور حتیٰ کہ وزیر اعظم بھی ان ججوں کی تعیناتی کی مزاحمت کرنے والوں میں شامل ہو گئے۔انہوں نے کہا کہ اس وقت کے صدر آصف زرداری کے خلاف سوئس حکام کو خط نہ لکھنے پر سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو عہدے سے ہٹانا غلط تھا کیونکہ صدر کو آئینی استثنیٰ حاصل تھا۔انہوں نے کہا کہ 9 مارچ 2007 کو چیف جسٹس افتخار چوہدری کو جب آرمی ہاؤس میں نظر بند کیا گیا تو میرے ساتھی جسٹس یحییٰ آفریدی کے مشورے پر ہم نے حبسِ بیجا کی درخواست دائر کرنے کا فیصلہ کیا اور ہمارے وکیل جسٹس منصور علی شاہ تھے، رجسٹرار نے 12اعتراضات لگائے اور پھر وہ درخواست کبھی نہیں لگی تمام ججز کو معلوم تھا کہ اْن کے چیف جسٹس گھر میں نظر بند ہیں مگر کسی نے وہ درخواست نہیں سنی۔انہوں نے کہا کہ 18ویں ترمیم پاکستان کیلئے بہترین تھی مگر اْس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اِسے عدلیہ کی آزادی مخالف قرار دیا، اور پارلیمنٹ سے زبردستی 19ویں ترمیم کروائی اور یہ سب وکلا تحریک کے اصولوں کے منافی تھا وکلا تحریک کے بحال ہونے والے ججوں نے نوجوان نسل کو بہت مایوس کیا، یہ ججوں کی بحالی کی نہیں آئین کی بحالی کی تحریک تھی۔ انہوں نے کہا کہ میمو گیٹ کیس اِس قابل نہیں تھا کہ سپریم کورٹ اس پر سماعت کرتی، وزیراعظم کو تاحیات نا اہل کیا گیا اور عہدے سے برطرف کیا گیا، وکلا تحریک اس مقصد کے لیے نہیں تھی