شاہ جمال، ڈھول اور پپو سائیں

ڈاکٹر صغرا صدف
29 نومبر ، 2021
وجدان…ڈاکٹر صغرا صدف
کچھ ہی دن ہوئے حضرت شاہ جمال کا عرس منعقد ہوا۔ یہ دربار اپنی بے پناہ خوبصورتیوں اور کرامات و اثرات کی وجہ سے ہر طبقۂ فکر کے لوگوں میں مقبول اور محبوب ہے۔ ان کا خاندان کشمیر میں آباد تھا لیکن کسی وجہ سے اس وقت کے حکمران سے اَن بَن ہونے کی وجہ سے سیالکوٹ ہجرت کی۔ شاہ جمال نے اکبر کے دور میں آنکھ کھولی۔ ان کی تعلیم و تربیت بھی عجیب معاملہ ہے۔ خدا کے نیک بندوں پر بچپن میں ہی کرامتوں کا ظہور شروع ہو جاتا ہے۔ کبھی انہیں اپنے اندر سے گواہی ملتی ہے اور کبھی باہر سے کوئی انہیں آ کر اس بارے میں آگاہ کرتا ہے کہ ان کا رستہ کوئی اور ہے۔ شاہ جمال کو پڑھائی لکھائی سے کوئی خاص رغبت نہ تھی، زیادہ وقت کھیل کود میں صرف کرتے۔ ایک دن گلی میں کھیل رہے تھے کہ ایک درویش شاید جسے خدا نے وسیلہ بنا کر بھیجا ہو وہاں سے گزرا۔ اس نے شاہ جمال کو اشارے سے اپنی طرف بلایا اور کہا کہ آپ کھیل کود میں کیوں وقت ضائع کر رہے ہیں۔ آپ کو تو خدا نے کسی خاص مقصد کے لئے پیدا کیا ہے۔ یہ سنتے ہی حضرت شاہ جمال گھر لوٹ گئے اور اگلے چند دنوں بعد ایک مدرسے میں داخل ہو گئے۔ سخت محنت سے دینی علوم میں ایسی مہارت حاصل کی کہ لوگ علمی معاملات کے لئے آپ سےرجوع کرنے لگے۔
تقریباً چالیس سال کی عمر میں لاہور تشریف لائے ، اچھرہ میں اس جگہ جہاں آج کل اُن کا دربار ہے ‘ڈیرا لگایا۔ ہر ایک کو یہ تلقین کرتے تھے کہ جھوٹ مت بولو، کم مت تولو اور غیبت نہ کرو۔ بہت سارے لوگ جو غیر مسلم تھے اور کم تولتے تھے۔ آپ کی نظرِ کرم کے بعد سونا تولنے والے باٹ استعمال کر نے لگے۔ سہروردیہ اور قادر یہ دونوں سلسلوںسے تعلق تھا۔ ظاہری اور باطنی خوبصورتی سے مالا مال تھے۔ حسن اخلاق کا یہ عالم تھا کہ جو بھی آپ سے ایک دفعہ مل لیتا وہ بار بار آپ کی طرف جھکتا۔ جب آپ کے مریدوں نے آپ کو حجرے سے نکالنے کی کوشش کی تو اندر سے آواز آئی جو کچھ ہونا تھا ہو چکا اب پردہ فاش نہ کیا جائے اور حجرے کا دروازہ بند کر کے قبر کا نشان بنا دیا جائے۔ اسی طرح کیا گیا۔ پچھلے تیس چالیس سال سے پپو سائیں اور شاہ جمال کی نسبت کا خوب چرچا رہا۔ یہاں ہونے والی تقریبات میں ایک بڑا حصہ ڈھول کا ہوتا ہے۔ ڈھول ایک کرشماتی اور روحانی ساز ہے جس پر پڑنے والی چوٹ روح پر محسوس ہوتی ہے، انسان کو خواب غفلت سے بیدار کر کے یوں متحرک کرتی ہے کہ بدن میں منجمد لہو فعال ہو کر عمل کے دائرے میں رقص کرنے لگتا ہے۔ ڈھول ایک قدیم ساز ہے۔ شاید جب لفظ ایجاد نہیں ہوئے تھے، انسان نے بول کر خوشی اور محبت کا اظہار کرنا نہیں سیکھا تھا، اس وقت کسی نہ کسی چیز کو ڈھول کی طرح بجا کر احساسات کا اظہار کیا جاتا تھا۔ ہم نے شادی بیاہ، بچوں کی پیدائش، کسی بھی کھیل میں جیت کے حوالے سے ڈھول کو زندگی کا حصہ بنتا دیکھا ہے۔ ڈھول کی برصغیر میں اہمیت کا یہ عالم تھا کہ انگریزوں نے ایک دور میں اس وجہ سے اس پر پابندی عائد کر دی تھی کہ جب ڈھول بجایا جاتا تو یہاں کی مقامی آبادی میں لڑنے کا جوش پیدا ہو جاتا اور وہ زیادہ طاقت سے حملہ آور ہوتے تھے، دوسرے لفظوں میں یہ کہیں کہ ان میں بیداری پیدا ہو جاتی ہے۔ شاہ جمال کے دربار کے ساتھ ایک ہستی نے اپنا ناطہ جوڑا اور پھر پوری دنیا میں معروف ہو گئی۔ یوں تو اس دربار نے بڑے لوگوں کو نوازا اور راہِ راست کی طرف راغب کیا لیکن روحانیت اور تصوف میں ایک نئے دور کا آغاز تب ہوا جب پپو سائیں نے ڈھول کے ذریعے نئے تجربات کئے۔ بارہ سال کی عمر میں ڈھول بجانا اپنے والد سے سیکھا۔ پیدائشی درویش صفت انسان تھے، پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے لیکن سُر کی زبان اور سُر میں گفتگو کرنا خوب آتا تھا۔ پھر ڈھول گلے میں ڈالا تو من روشن ہو گیا۔ معرفت کی شمع جل اُٹھی تو ڈھولچی خود بھی منور ہوا اور دنیا کو بھی مسحور کرنے لگا۔ مست الست رنگ میں رنگا ہوا پورے عالم میں چھا گیا۔ دنیا کو اس ساز کی اہمیت سے آگاہ کیا۔ پپو سائیں کے ساتھ ڈھول کا تذکرہ اور ڈھول کے ساتھ پپو سائیں کا تذکرہ دنیا میں گونجنے لگا۔ وہ جو ہماری زبان نہیں سمجھتے تھے پپو سائیں کے ڈھول کے ساتھ رقص کرنے پہنچنے لگے۔ شاہ جمال سے پپو سائیں کو بڑی محبت تھی۔ پپو سائیں کے ڈھول کو دیکھیں تو اس میں اللہ ھو سے لے کر صوفیانہ روایت کا ہر سلسلہ نظر آتا ہے۔ اس میں دھمال بھی ہے، وجد ہے، رومی رقص ہے اور بھنگڑا بھی ہے اور یہ سارے روحانی انداز ہیں، خدا سے وصل کے وسیلے ہیں، روح کی آواز پر ھو کا ورد کرنے کے طریقے ہیں۔ شاہ جمال کے عرس کے آس پاس پپو سائیں بھی اس دنیا سے چلے گئے۔ ان کے بیٹے قلندر سائیں میں ان کا جوش اور ولولہ نظر آتا ہے۔ شاید یہ سلسلے آگے بڑھتے رہتے ہیں اور لوگوںکی مادیت میں جکڑی روحوں کو ڈھول کی تھاپ سے روحانیت کی طرف آواز دیتے رہتے ہیں اور ایسا ہوتا رہے گا۔