سیاست کے پیچ و خم

اداریہ
01 اگست ، 2024

اس وقت دو اہم خبریں پیش نظر ہیں۔ ایک خبر مخصوص نشستوں پر نئی قانون سازی سے متعلق ہے جس کے تحت انتخابات ایکٹ میں مزید ترمیم کا بل قومی اسمبلی میںپیش کیا گیا ہے۔ بل کے تحت کسی سیاسی جماعت سے وابستگی کا اقرار نامہ تبدیل نہیں کیا جاسکتا، آزاد رکن 3دن کے اندر کسی جماعت میں شامل ہوسکتا ہے، جس جماعت نے مخصوص نشستوں کی فہرست نہ دی ہو اسے مخصوص نشستیں نہیں دی جاسکتیں۔ دوسری خبر کے بموجب سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان نے فوج سے مذاکرات کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ کمرہ عدالت میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ ہم فوج کے ساتھ مذاکرات کے لئے تیار ہیں، فوج اپنا نمائندہ مقرر کرے، ہم مذاکرات کریں گے۔ قبل ازیں وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے اپوزیشن سے گفتگو کی خواہش ایک سے زائد بار سامنے آچکی ہے مگر اس باب میں باضابطہ رابطے کی کوئی صورت نمایاں نہیں ہوئی۔ ہفتہ 27جولائی کو وفاقی وزیر برائے پیٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک کی طرف سے یہ پیش کش ایک پریس کانفرنس میں اس مشورے کی صورت میں دہرائی گئی کہ پاکستان تحریک انصاف کو حکومت کے ساتھ مل بیٹھ کر ملک کو موجودہ مشکل صورت حال سے نکالنے میں مدد دینی چاہئے تاہم دوسرے ہی سانس میں انہوں نے پی ٹی آئی کو ملک دشمن قرار دے دیا جبکہ جواباً پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے حکومت پر دہرے معیار کے الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ ایک طرف پی ٹی آئی کے کارکنوں کو دیوار سے لگایا جارہا ہے اور دوسری طرف انہیں مذاکرات کی پیش کش کی جارہی ہے۔ 23مئی کو جیو نیوز سے گفتگو میں وزیر اطلاعات عطا تارڑ کا بیان تھا کہ اصولی طور پر پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے مگر اس باب میں حکمراں اتحادیوں کے درمیان وسیع تر اتفاق کا انتظار ہے۔ صورت حال کا ایک پہلو مختلف ذرائع اور حلقوں کے یہ کنائے ہیں کہ پی ٹی آئی کی طرف سے سوشل میڈیا کا غیر ذمہ دارانہ بلکہ دہشت گردانہ استعمال کیا جارہا ہے۔ ہم، ہماری سیاسی جماعتیں اور تمام حلقے جس جمہوری نظام کی بات کرتےہیں اس کی تعریف ابراہام لنکن نے ’’عوام کی حکومت، عوام کے لئے، عوام کے ذریعے‘‘ کرکےیہ واضح کر دیا ہے کہ مختلف الخیال عناصر پارٹیوں اور گروپوں کو اپنی نظری، فکری اور قدرت کی عطا کردہ دیگر صلاحیتوں و توانائیوں سے ملک اور عوام کے لئے اخلاص سے کام کرنا ہے۔ بانی پی ٹی آئی نے اگر مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کیا ہے تو اس پر سنجیدگی سے توجہ دی جانی چاہئے۔ براہ راست مکالمے میں کوئی رکاوٹ ہو تو بالواسطہ بات چیت کا راستہ اپنایا جانا چاہئے۔ شکوئوں ،شکایتوں کو ٹیبل پرپیش کیا جانا اور وہیں ان کے حل کی صورت نکالی جانی چاہئے۔ ملک اس وقت سنگین معاشی بحران سے دوچار ہے۔ دہشت گردی و بدامنی اس پر مستزاد ہے۔ جس کے سدباب پر پوری قوم کی یکسوئی بھرپور طور پر سامنے آنی چاہئے۔ 9مئی کے واقعہ کے کچھ ایسے پہلو ہیں جن کے بارے میں ذہن صاف ہونے چاہئیں۔ قانون سازی کے بارے میں ماضی میں یہ تاثر نمایاں ہوئے کہ بعض قوانین کچھ لوگوں کو فائدہ یا نقصان پہنچانے کیلئے بنائے گئے۔ اب ایسا تاثر پیدا نہ ہونے دیا جانا چاہئے۔ عدلیہ سمیت تمام ادارے ہمارا سرمایہ ہیں ان کا احترام برقرار رکھا جانا چاہئے۔ آزادانہ و منصفانہ انتخابات کی یقیناً اہمیت ہے مگر درپیش معاشی و سماجی حالات میں اتنی بڑی مہم جوئی کے اپنے مضمرات ہیں جن پر سنجیدہ غور و فکر ضروری ہے۔ اس باب میں رابطے کی براہ راست، بالواسطہ، بیک ڈور جو بھی صورت ممکن ہو اس پر شرطیں عائد کرنے کی بجائے آگے بڑھنے کی ممکنہ سبیل بروئے کار لائی جانی چاہئے۔ پاکستان کی سلامتی اور ترقی وہ نکتہ ہے جس پر ملک کے ہر فرد کی نظر رہنی چاہئے۔