’’مولے نوں مولا نہ مارے تے مولا نئیں مردا‘‘

محمد بلال غوری
01 اگست ، 2024

سیاست پر گہری نظر رکھنے والے بیشتر دانشور جنہیں میدان صحافت میںمجتہد کی حیثیت حاصل ہے ،ان کا اصرار ہے کہ وطن عزیز کو بند گلی سے نکالنے کیلئے بانی تحریک انصاف کو اڈیالہ جیل سے نکال کر ایوان اقتدار تک جانے کا راستہ فراہم کرنا ہوگاتاکہ وہ وزیراعظم بننے کے بعد خود اپنی قبر کھودیں اور ان کی سیاست ہمیشہ کیلئے دفن ہو جائے۔شاید دانشوران قوم ابراہم لنکن کے اس قول سے متاثر ہیں کہ مصائب وآلام کو تو کم و بیش تمام مرد جھیل سکتے ہیں ،لیکن اگر آپ کسی شخص کا کردار جانچنا چاہتے ہیں ،اسے بے نقاب کرنا چاہتے ہیں تو اقتدار اور اختیار اس کے سپرد کردیں۔کڑوا گھونٹ سمجھ کر اس تجویز کو حلق سے نیچے اُتارنے کے حق میں دیئے جارہے علمی و فکری دلائل کو ایک سادہ سے جملے میں سمیٹنے کی کوشش کی جائے تو پنجابی فلم کا مکالمہ مستعار لینا پڑے گاکہ’’مولے نوں مولا نہ مارے تے مولا نئیں مرداَ‘‘۔محولا بالا تجویز اور اس کے حق میں دیئے جارہے دلائل کو باآسانی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ پاکستان کی مختصر سیاسی تاریخ سے کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ماضی قریب میں شاید 2022ء تک مسلم لیگ(ن)ایک مقبول ترین سیاسی جماعت تھی ،مزاحمت کا بیانیہ سر چڑھ کر بول رہا تھا ،ووٹ کو عزت دو کا نعرہ گونج رہا تھا ،سویلین بالادستی کے خواب ہاتھوں ہاتھ بک رہے تھے لیکن پی ڈی ایم کی چھتری تلے 16ماہ کے اقتدار اور اب اس لولی لنگڑی حکومت نے صورتحال یکسر تبدیل کردی ہے۔لیکن تاریخ کے ادنیٰ طالبعلم کی حیثیت سے مجھے یہ تجویز غیر حقیقت پسندانہ محسوس ہوتی ہے۔بصد احترام عرض کروں گا کہ عمومی واقعات کے تحت مرتب کئے گئے اصولوں کا اطلاق مخصوص حالات میں مخصوص شخصیات پر نہیں کیا جاسکتا۔آپ نیوٹرل کی اصطلاح کو ہی دیکھ لیں ،کیا کوئی سیاستدان ایک وقت میںیہ فتویٰ دینے کے بعد کہ نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے ،غیر جانبداریت کے حق میں بات کرسکتا ہے؟شاید اس بات سے کسی کو اختلاف نہ ہو کہ جب اپریل 2022ء میں تحریک انصاف کی حکومت تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ختم ہوئی تو پی ٹی آئی کی مقبولیت کم ترین سطح پر تھی ۔کوئی ٹکٹ لینے کو تیار نہیں تھا،توقع ظاہر کی جارہی تھی کہ انتخابات میں امیدوار نہیں ملیں گے ،یہ عوام میں جائینگے تو لوگ گندے انڈے اور ٹماٹر پھینکیں گے۔لیکن کیا ہوا؟چند ہفتوں میں رجیم چینج کا ایسا بیانیہ بنایا گیا ،ہم کوئی غلام ہیں کاوہ جادوئی مژدہ جانفزا سنایا گیا کہ انقلاب کے خواب پھر سے آنکھوں میں رچ بس گئے اور بقول شاعر’’کایا کلپ ہوئی ہے یوں گرگان دشت سوس کی۔گریہ کناں جمال جو زہرہ جمال ہوگئے۔‘‘سرتسلیم خم ،میں مانتا ہوں کہ خون کے دھبے خون سے نہیں دھوئے جاتے ۔سیاسی جماعتوں کو حرف غلط کی مانند نہیں مٹایا جاسکتا۔یہ فطری نظام کے تحت بکھرتی ہیں ،انہیں توڑنے کی کوشش کی جائے تو مزید مضبوط اور طاقتور ہو جاتی ہیں۔میں جانتا ہوں کہ اقتدار ملنے پر بڑے سورما ہیرو سے زیرو ہوجاتے ہیں ۔مقبولیت مُٹھی میں بند ریت کی مانند پھسل جایا کرتی ہے۔لیکن یہ باتیں سیاسی کلٹ بنا کر مسلط ہوجانے والے فاشسٹ حکمرانوں پر لاگو نہیں ہوتیں۔ہٹلر کی طرح بدطینیت نابغے جو مقبولیت کی لہر پر سوا رہوکر آتے ہیں ،ان کے اپنے قاعدے اور قانون ہوتے ہیں ۔وہ کسی قسم کی پابندیوں ،اصولوں اور ضابطوں کو نہیں مانتے ۔آپ مروجہ قواعد کے تحت ان کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،پہلے سے موجود اصولوں کے تحت چلتے ہوئے انہیں شکست دینے کی کوشش کرتے ہیں مگر وہ چال چلنے کے بجائے کھیل کے اصول بدل دیتے ہیں ۔شاید شکاگو میں کھیلی جانے والی مڈ ریسلنگ کا بھی کوئی قاعدہ اور قانون ہوتا ہو مگر ان کے ہاں ایک ہی اصول کارفرما ہوتا ہے کہ جب ضرورت پڑے اصول بدل دو۔تکلف برطرف،2018ء میں جب تحریک انصاف کو حکومت میں لایا گیا تو تب بھی یہی دلیل تھی کہ ایک بار حکومت ان کے حوالے کرنی پڑے گی تاکہ طفلان انقلاب کی خارش ختم ہوسکے ۔لیکن یہ لاعلاج قسم کی دائمی خارش ہے ،موقع ملنے پر ختم ہونے کے بجائے بڑھتی چلی جاتی ہے۔تلخ حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف کے پہلے دورِ حکومت میں ہم نے جس طرح کی فسطائیت دیکھی ہے ،اس میں جمہوریت کی ملمع کاری تھی ،پارلیمانی نظام کی پردہ داری تھی ،کسی حد تک لحاظ ،مروت ،اقدار اور روایات کی زنجیریں حائل تھیں مگر اب برسراقتدار آنے کی صورت میں ایسا ’’انقلاب ‘‘آئے گا کہ لوگ ہٹلر ،مسولینی اور اسٹالن کو بھول جائیں گے ۔طالبان نے پہلی بار کابل فتح کرنے کے بعد ظلم وجبر کی جو تاریخ رقم کی تھی ،اس کی چمک دمک ماند پڑ جائے گی۔ڈپٹی اسپیکر کے ذریعے عدم اعتماد کی قرارداد ووٹنگ کروائے بغیر جس طرح مسترد کی گئی تھی ،وہ تو نظام کے خلاف ایک چھوٹی سی بغاوت تھی ،اب تو موقع ملنے پر نظام ہی بدل دیا جائے گا۔آپ کو یاد ہوگا ،ہٹلر نے جرمن چانسلر بننے کے بعد کیا کیا تھا؟انقلابی ایجنڈے کی تکمیل کی راہ میں جرمن پارلیمنٹ reichstag سب سے بڑی رکاوٹ تھی ۔اسے غیر موثر کرنے کیلئے enabling actمنظور کروایا گیا۔دقت یہ تھی کہ نازی پارٹی کے پاس اس آئینی ترمیم کے لئے ایوان میں مطلوبہ دو تہائی اکثریت نہیں تھی۔چھوٹی جماعتوں کو ساتھ ملانے کے باوجود ہٹلر کے پاس 340ووٹ تھے جبکہ آئینی ترمیم کیلئے432ووٹ درکار تھے ۔ہٹلر کے وفادار ساتھی herman goringجو جرمن پارلیمنٹ کے اسپیکر تھے انہوں نے رولنگ دیدی کہ کیمونسٹ پارٹی کے 81ارکان پارلیمنٹ ملک دشمن اور غدار ہیں لہٰذا ووٹنگ کے دوران انہیں شمار کرنے کی ضرورت نہیں۔راتوں رات کریک ڈائون کرکے ان ارکان پارلیمنٹ کو غائب کردیا گیا ۔کیتھولک مذہبی جماعت kaasسے اتحاد کرکے مطلوبہ اکثریت حاصل کی گئی اور پھر جس طرح چوراہوں میں عدالتیں لگا کرتی تھیں ،سیاسی مخالفین کو ٹھکانے لگایا جاتا تھا ،یہ سب تاریخ کا حصہ ہے ۔یہ اندیشہ ہائے دور دراز نہیں ،زمینی حقائق پر مبنی خدشات ہیں۔ بعض اصحاب کہتے ہیں ،اگر یہ تاریک رات شروع ہوبھی گئی تو کبھی نہ کبھی تو سحر ہوگی ۔میراخیال ہے ،اس باربانی تحریک انصاف حکومت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو یہ رات بہت طویل ہوگی،وہ ہٹلر کی طرح تاحیات حکمران ہوں گے۔