مجھے دو باتیں سمجھ نہیں آتیں ایک یہ کہ پاکستان پیچھے کیوں رہ گیا ہے اور انڈیا آگے کیوں نکل گیا ہے بظاہر پاکستان کے پیچھے رہ جانے کی کوئی وجہ نہیں اللہ کے فضل سے ہمارے ہاں سب کچھ ہے ہمیں تقریباً روزانہ اخبارات کی اشتہاری خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے پاکستان کے ڈاکٹر بغل بطورا صاحب انگلستان، جاپان اور امریکہ میں طبی سائنس کے کرشموں سے گوروں اور چپٹوں کی آنکھیں چندھیا کر واپس پاکستان پہنچ گئے ہیں ۔وہاں انہوں نے ایڈز اور کینسر کے لاکھوں لاعلاج مریضوں کا کامیاب علاج کیا جس پر انہیں بٹھنڈہ یونیورسٹی کی اعزازی ڈگری پیش کی گئی ۔ڈاکٹر چیچو چچ کا آبائی شہر چیچہ وطنی ہے جہاں وہ ایک کلینک میں کمپوڈر تھے ایک مریض کے دل کا آپریشن کرنے کی کوشش میں موقع پرپکڑے گئے مگر کچھ دے دلا کر رہا ہو گئے اور کچھ دے دلا کر لندن پہنچنے میں کامیاب ہو گئے جہاں انہوں نے اپنی رہائش گاہ (ایک فلیٹ کا تہہ خانہ ) میں بٹھنڈہ یونیورسٹی قائم کی ۔اب اللہ کے فضل سے وہ خلق خدا کی خدمت کی غرض سے ایف آر سی ایس کی ڈگریاں ٹائپ کرکے بہت کم معاوضے پر ضرورت مندوں کو فروخت کرتے ہیں۔ اس یونیورسٹی سے ابلاغیات، لٹریچر، فلسفہ اور دیگر مضامین میں پی ایچ ڈی کی ڈگریاں بھی صرف پچاس پونڈمیں حاصل کی جاسکتی ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے ڈاکٹر بغل بطورا اور ڈاکٹر چیچو چچ کی مہارت اور ذہانت کے سامنے اہل مغرب بھی حیران پریشان نظر آتے ہیں اور ڈاکٹر چیچوچچ نے پاکستان سے بے بنیاد محبت کے پیش نظر تمام مضامین ماسٹر اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں لاہور اور کراچی کے مختلف پٹرول پمپوں پر بھی فروخت کیلئے رکھ دی ہیں!ہم پاکستانیوں کی طرف سے طبی سائنس ہی کے شعبے میںترقی کی خبریں سامنے نہیں آتیں بلکہ اشتہاری خبروں سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ ہم عملیات میں بھی دنیا سے بہت آگے ہیں ۔ہمارے ہاں ایک عامل بابا موجود ہے جس کےٹونوںسے دشمن کی توپ میں کیڑے پڑ سکتے ہیں جو ہنستے کھیلتے گھرانے میں فساد کے بیج بو کر اسے تباہ برباد کر سکتا ہے جس کے ایک تعویذ سے سنگدل محبوب عاشق کے قدموں میں لوٹنے لگتا ہے۔ سینکڑوں کی تعداد میں جن اور بھوت ہاتھ باندھے ان بابوں کے سامنے کھڑے رہتے ہیں اور عامل بابا کے اشارے پر کام کر گزرتے ہیں۔
اسی طرح ہمارے ہاں یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ ہم نے سیاست کی سائنس میں بھی بہت ترقی کی ہے بلکہ سیاست کو سائنس بنایا ہی ہم نے ہے۔ ہمارے ہاں جمہوری دور میں عملی طور پر حکومت ہارنے والے سیاست دانوں کی ہوتی ہے وہ جب چاہیں حکومت کا تختہ الٹا سکتے ہیں یا اٹھوا سکتے ہیں حتیٰ کہ ہماری مینڈیٹ حاصل کرنے والی جماعت کی حکومت بھی ان کے سامنے خس وخاشاک سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتی یہ جب چاہیں ایک پھونک مار کر اسے اڑا سکتے ہیں چنانچہ انہیں روحانی شخصیت بھی مانا جاتا ہے۔ چونکہ یہ عوام کے ووٹوں کے محتاج نہیں ہوتے،لہٰذا عوام بھی انہیں ووٹ نہیں دیتے۔ہمارے اخبارات ان سیاست دانوں کی روحانیت کی وجہ سے ان کی بہت عزت کرتے ہیں چنانچہ ان کے بیانات شہ سرخیوں سے شائع کئے جاتے ہیں ۔جیتنے والوں کے خلاف ہارنے والوں کے الزامات کو معتبر سمجھا جاتا ہے اور یوں کسی الزام کے سچا یا جھوٹا ہونے کی پروا نہیں کی جاتی ایمان بالغیب کی ایک قسم یہ بھی ہے۔یہ اور اس طرح کے زندگی کے دوسرے تمام شعبوں میں ترقی کی خبریں ملتی رہتی ہیں لیکن عجیب بات ہے کہ عملی طور پر ملک ترقی کی طرف جانے کی بجائے مسلسل تنزلی کی طرف جا رہا ہے۔ اس کے برعکس انڈیا کے زوال کے بے شمار شواہد ملتے ہیں لیکن عملی طور پر یہ ملک ایک معاشی دیوکی صورت اختیار کر گیا ہے اور خود کو سپرپاور تصور کرنے لگا ہے۔ حالانکہ ان کے ہاں لالو پرشاد اتنی زیادہ تعداد میں ہیں کہ پاکستانی سیاست دان اس پر صرف رشک ہی کر سکتے ہیں۔بھارتی فلمیں اور اخبارات سیاست دانوں کی اس درجہ کردار کشی کرتے ہیں کہ لگتا ہے جرائم پیشہ افراد کا ایک منظم گروہ انڈیا پر حکومت کر رہا ہے۔ بسااوقات بھارتی فوج پر غصہ آنے لگتا ہے کہ اس نے ملک کو کن سیاستدانوں کے سپرد کر رکھا ہے بلکہ وہاں ہارنے والے سیاستدان بھی عجیب مٹی کے بنے ہوئے ہیں وہ آپس میں مارپیٹ تک کرلیتے ہیں مگر فوج کو مداخلت کی دعوت نہیں دیتے۔ ان ساری کمزوریوں کے باوجود پوری دنیا میں بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت تصور کیا جاتا ہے اسکی عدالتوں کا احترام موجود ہے اور اسکے تمام ادارے اپنے اپنے دائرے میں کام کرتے رہتے ہیں۔معاشی ترقی نے یورپ اور امریکہ کو بھی بھارت میں سرمایہ کاری پر مجبور کر دیا ہے۔ شکر ہے یہ ساری باتیں میری سمجھ سے بالاتر ہیں سب اچھی باتیں ہمارے دامن میں مگر ہم پستیوں کی طرف جا رہے ہیں اور سب بری باتیں ہمارے ازلی دشمن بھارت کے پلڑے میں نظر آتی ہیں لیکن یہ ملک ترقی کر رہا ہے ۔میں اپنی یہ الجھن دور کرنے کیلئے آج کسی عامل بابے کے در پر حاضری دوں گا اور درخواست کروںگا کہ وہ دس بارہ جنوں پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیشن بنائیں اور یہ بتائیں کہ ہم میں کیا کمی ہے جس کی وجہ سے ہم نیچے ہی نیچے جا رہے ہیں اور بھارت میں کیا ’’زیادتی ‘‘ ہے کہ اتنے کرپٹ سیاست دانوں کے باوجود مسلسل اوپر ہی اوپر جا رہا ہے ۔
مزید خبریں
-
گزشتہ ہفتے چار ستمبر کی رات سوا گیارہ بجے جب میں کراچی اپنے گھر واپس آرہا تھا تو میری گاڑی راستے میں ایک...
-
برطانیہ میں عمومی طور پر کنزرویٹو پارٹی کو سرمایہ داروں اور جاگیرداروں جبکہ لیبرپارٹی کو ورکنگ کلاس یا مڈل...
-
پاکستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات نے نہ صرف سیکورٹی فورسز کو جھنجھوڑ کر رکھ دیاہے بلکہ پاکستان کے تمام...
-
ہر شخص چین کے اُن پوشیدہ رازوں کو جاننے کی کوشش کر رہا ہے جس کی وجہ سے وہ حیران کن طور پرہر میدان میں ہمہ جہت...
-
جس کام کا نام ہے سیاست وہ کام بزور ہو رہا ہے ہر قسم کی ہو رہی ہے ہڑبونگہر قسم کا شور ہو رہا ہے
-
منی بجٹ ……مبشر علی زیدیڈوڈو، ہوم ورک کیا ہے؟ماسٹر صاحب نے پوچھا۔نہیں استاد جی، ڈوڈو نے مسمسی صورت بنائی۔چل...
-
وطن عزیز میں دوسری مرتبہ کسی خاتون کو سیکرٹری خارجہ لگایا گیا ہے، اس سے پہلے خاتون سیکرٹری خارجہ تہمینہ...
-
کسی بھی سوچنے سمجھنے والے شخص کی سوچ کبھی یکساں نہیں رہتی، اس میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں خود میرا بھی یہی عالم...