پچھلی صدی کو ’رفتار‘ اور ’شور‘ کی صدی کہا جاتا تھا یعنی مشینوں کی ایجادات کی صدی، اور مشین کا سادہ مطلب ہے رفتار اور شور، مگر موجودہ صدی نے رفتار کے اعتبار سے پچھلی صدی کو بھی گویا صدیوں پیچھے چھوڑ دیا ہے، ڈیٹا پراسسنگ اور انٹرنیٹ کی رفتار ہوش ربا ہوچکی ہے، اگر giga کا مطلب ہے ایک ارب اور hertz کا ایک سیکنڈ توایک عام سے دو چار گیگا ہرٹز والے لیپ ٹاپ پراسیسر کی بگٹٹ رفتار کا اندازہ لگائیے؟ اور 5g انٹرنیٹ سپیڈ اب بہت سے ممالک میں میسر ہے، فائیو جی کی رفتار کا اندازہ بس اس سے لگائیے کہ یہ فور جی سے سو گنا تیز تر ہے۔یاد رہے کہ بہت سے ممالک اب 6g اور 7g ٹیکنالوجی کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ آئیے اب آپ کو پاکستان لیے چلتے ہیں۔وہاں دگرگوں ہے لحظہ لحظ، یہاں بدلتا نہیں زمانہ۔ کچھ عرصہ پہلے تک ہم ٹو جی، تھری جی انٹرنیٹ سپیڈ استعمال کر رہے تھے اور ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہے تھے، اس سال کے آغاز میں حکومت نے اعلان کیا کہ جولائی اگست 2024 تک پاکستان 5g دور میں داخل ہو جائے گا۔ مگر پھر ہوا کیا؟ ذاتی تجربے کی روشنی میں عرض ہے کہ عام انتخابات کے دن سے آج تک ہمارا انٹر نیٹ لنگڑا کر چل رہا ہے، جیسے کسی قدیم بہلی کا شکستہ دُھرا ، یوں سمجھیے کہ 1g یا آدھا جی۔ ایسا کیوں ہوا؟ کیا ہمارے آپٹک فائبر میں کیڑے پڑ گئے ہیں، یابرسات میں جیسے دروازے پھول جاتے ہیں اس طرح انٹرنیٹ گیٹ وے سُوج گیا ہے؟ یا حکومت نے ’قومی مفاد‘ میں کوئی فائر وال یا واٹر وال کھڑی کر دی ہے؟ کیا ہوا ہے؟ ہمیں کچھ معلوم نہیں، نہ حکومت نے ہمیں آگاہ کرنا مناسب سمجھا ہے۔ بہرحال، اب ہم ہیں اور ماتمِ رفتارِ برقی پیغام رسانی ۔ اہلِ دنیا رفتار کی صدی کا جشن منا رہے ہیں، اور ہم اپنے وسائل اور توانائیاں اس رفتارکو کم کرنے پر صرف کر رہے ہیں۔ یہ رویہ فقط انٹر نیٹ تک محدود نہیں ہے، ریاست کے ہر صیغے اور زندگی کے ہر شعبے کی طرف ہمارا طرزِ عمل رفتار دشمنی پر مبنی ہے، ہم پیچھے ہٹ رہے ہیں، ہم نیچے گر رہے ہیں۔رفتار سے پیرس اولمپکس کا خیال آ گیا، یہ بھی ترقی معکوس کا قصہ ہے۔ ہم نے آج تک کُل ملا کر اولمپکس میں دس میڈل جیتے ہیں جن میں سے آٹھ ہاکی کے ہیں۔ پھر یوں ہوا کہ نہ ہاکی رہی نہ میڈلز۔ پاکستان نے آخری اولمپکس میڈل بتیس سال پہلے جیتا تھا۔ اس زوال کے اسباب ہم سے ڈھکے چھپے نہیں، کھیلوں کو بھی وہی لوگ چلاتے رہے ہیں جو اس ملک کو ہانکتے رہے ہیں، یعنی ایسے لوگ جن کا نہ یہ شعبہ ہے نہ تجربہ، اور نہ وہ قابلِ احتساب ہیں۔ ہمارے ہاں کھیلوں کے ناگفتہ بہ حالات کا اندازہ صرف ایک بات سے لگائیے۔ فلسطین میں تقریباً تین سو کھلاڑی، کوچ اور متعلقہ عملہ حالیہ بم باری میں شہید ہو چکا ہے، پریکٹس کے لیے نہ کوئی میدان ہے نہ عمارت، اور فلسطین کے آٹھ کھلاڑی پیرس اولمپکس میں حصہ لے رہے ہیں جب کہ پاکستان کا اولمپکس دستہ سات کھلاڑیوں پر مشتمل ہے، یعنی پاکستان سے زیادہ ایتھلیٹ غزہ کے ملبے سے نکل کر پیرس پہنچے ہیں۔ معیشت سے سیاست تک، جس طرف نظر دوڑائیں، ہماری رفتار کم ہو چکی ہے، بلکہ کم کر دی گئی ہے، بالکل اُسی طرح جیسے انٹرنیٹ کی رفتار کو’ قومی مفاد‘ میں پا بہ زنجیر کیا گیا ہے۔ 2013 میں جب ایک اسمبلی پانچ سال پورے کر کے رخصت ہوئی، نئے الیکشن ہوئے (جو 2018 اور 2024 کے انتخابات کے بعد تو انتہائی پوتر لگنے لگے ہیں) نئی حکومت بنی، تو ہم سمجھے کہ ہمارا ملک بھی اب جمہوریت کی شاہ راہ پر چل پڑا ہے۔ کیا خبر تھی کہ راستے میں ثاقب نثار اور باجوہ جیسے سائنس دان فائر وال کھڑی کر دیں گے، اور پھر یہ سلسلہ دراز تر ہوتا چلا جائے گا، اور جمہوریت کی سپیڈ دوبارہ 1g پر آ کھڑی ہو گی۔اُدھر عمران خان بھی آخر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ انہیں ’قومی مفاد‘ میں اپنی سپیڈکم کرنے کی ضرورت ہے، لہذا سپہ سالار سے متعلق گفتگو میں انہوں نے ’آپ جناب‘ کا طرزِ تخاطب اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پارٹی زعماء کو بھی یہ احکامات جاری کیے گئے ہیں کہ عساکر سے متعلق زبان درازی ترک کر دی جائے، اور یہ کہ چیف صاحب بارے کوئی دریدہ دہنی برداشت نہیں کی جائے گی۔ عمران نے افواجِ پاکستان سے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ اپنا کوئی نمائندہ مقرر فرمائیںتاکہ با مقصد مذاکرات کا ڈول ڈالا جا سکے۔ اے کاش، عمران خان کچھ اسی قسم کی ہدایات سیاست دانوں بارے جاری کرتے،پارٹی کی پارلیمانی کمیٹی قائم کرتے اور ملک میں سیاسی بات چیت کا آغاز کرتے۔بہرحال، عمران خان کی صلح جوئی کی خواہش کی خبر کے ساتھ ملا کر دو خبریں اور بھی پڑھ لی جائیں۔ ایک تو یہ کہ بشریٰ بی بی کو راول پنڈی کے نو مئی کی دہشت گردی کے گیارہ کیسز میں نامزد کر دیا گیا ہے، اور دوسری خبر یہ ہے کہ ایک افسر کو فوجی عدالت نے چودہ سال قید با مشقت کا حکم سنایا ہے، ان کا جرم فوج میں بغاوت پھیلانے کی کوشش بتایا گیا ہے۔ کیا یہ عمران کی فوج سے معافی تلافی کی کوششوں کا بر وقت جواب ہے؟یا اسے سپریم کورٹ کے آٹھ ججوں کے فیصلے کے حوالے سے جواب آں غزل سمجھا جانا چاہیے؟ اہلِ دنیا رفتار کی صدی کا جشن منا رہے ہیں، اور ہم اپنے وسائل اور توانائیاں اس رفتارکو کم کرنے پر صرف کر رہے ہیں، دنیا دوڑ رہی ہے، ہم نِت نئی بیڑیاں ایجاد کر رہے ہیں، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ یہ ملک کسی پچھل پیری کی طرح الٹا چل رہا ہے۔
گزشتہ ہفتے چار ستمبر کی رات سوا گیارہ بجے جب میں کراچی اپنے گھر واپس آرہا تھا تو میری گاڑی راستے میں ایک...
برطانیہ میں عمومی طور پر کنزرویٹو پارٹی کو سرمایہ داروں اور جاگیرداروں جبکہ لیبرپارٹی کو ورکنگ کلاس یا مڈل...
پاکستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات نے نہ صرف سیکورٹی فورسز کو جھنجھوڑ کر رکھ دیاہے بلکہ پاکستان کے تمام...
ہر شخص چین کے اُن پوشیدہ رازوں کو جاننے کی کوشش کر رہا ہے جس کی وجہ سے وہ حیران کن طور پرہر میدان میں ہمہ جہت...
جس کام کا نام ہے سیاست وہ کام بزور ہو رہا ہے ہر قسم کی ہو رہی ہے ہڑبونگہر قسم کا شور ہو رہا ہے
منی بجٹ ……مبشر علی زیدیڈوڈو، ہوم ورک کیا ہے؟ماسٹر صاحب نے پوچھا۔نہیں استاد جی، ڈوڈو نے مسمسی صورت بنائی۔چل...
وطن عزیز میں دوسری مرتبہ کسی خاتون کو سیکرٹری خارجہ لگایا گیا ہے، اس سے پہلے خاتون سیکرٹری خارجہ تہمینہ...
کسی بھی سوچنے سمجھنے والے شخص کی سوچ کبھی یکساں نہیں رہتی، اس میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں خود میرا بھی یہی عالم...