اپنی حفاظت خود کریں

راجہ اکبرداد خان
01 اگست ، 2024

برطانوی پارلیمنٹ کے حالیہ انتخابات کے بعد ملک کی سیاسی فضا پہلے سے کہیں زیادہ بوجھل اور ڈرائونی محسوس ہوتی ہے۔ وجوہات کیا ہوسکتی ہیں، کنزرویٹو پارٹی جو پندرہ برس سے اقتدار میں چلی آرہی تھی کی شکست، نسلی اقلیتوں کے ممبران پارلیمنٹ کی تعداد میں اضافہ، چند آزاد ممبران کی کامیابیاں، پانچ ایسے ممبران جنہوں نے اپنی کامیابی کے لیے غزہ کی جنگ کا سہارا لیا۔ ایسے عوامل ہیں جنہوں نے برطانیہ کے پرسکون سیاسی اور ثقافتی ماحول میں ایسا ارتعاش پیدا کردیا ہے جس سے نمٹنے کا تجربہ برطانوی سیاست میں اس وقت موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر طرف تشدد کے بڑھتے ہوئے شواہد مل رہے ہیں۔ یہ تشدد خواہ زبانی ہو یا جسمانی معاشرہ کے لیے ایک نیا مسئلہ بن کر سامنے آرہا ہے۔ عدم برداشت بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ لوگوں کے رویوں میں تبدیلی کی سب سے بڑی وجہ عالم اسلام بالخصوص فلسطی (غزہ) کے حوالہ سے اسرائیلی جارحیت ہے۔ جو کم یا ختم ہونے کی طرف نہیں بڑھ رہی۔ عالم اسلام کا دوسرا اہم معاملہ ’’کشمیر ‘‘ ہے جس کو کہیں بھی زیر بحث نہیں لایا جارہا ہے۔پاکستانی اور کشمیری کمیونٹی ہائی جیک ہوگئی ہے۔ برطانیہ میں پاکستانی مسلمان کمیونٹی کی تعداد1.5ملین افراد کے لگ بھگ ہے۔ آزاد کشمیر اور راولپنڈی اور جہلم کے اضلاع سے لوگ کام کاج کے لیے آنے والوں میں سے سب سے پہلے ہیں۔ انہوں نے کئی بڑے شہروں مثلاً بریڈ فورڈ، برمنگھم، مانچسٹر اور لیڈز میں مساجد اور کمیونٹی سینٹر قائم کیے۔ برطانوی ہوم آفس نے ماضی قریب میں اس ملک میں سترہ سو کے قریب چھوٹی بڑی مساجد کا ذکر کیا ہے۔ پچھلی دو دہائیوں کے دوران انتہا پسند مولویوں نے ہر شہر میں اپنے پیروکار پیدا کرلیے ہیں۔ ہر شہر کی کئی مساجد اس مائنڈ سیٹ کی تابع ہیں۔ بنگلہ دیش کمیونٹی کے درمیان بھی اس طرح کا کام ہوتا رہا اور اس دوران سیکڑوں نوجوان شام، عراق اور مشرق وسطیٰ سے آئے ہوئے مذہبی رہنمائوں کی مشاورت سے متاثر ہوکر انتہا پسندی کی لپیٹ میں آگئے اور آج برطانیہ کے اندر ایسے ’’نیٹ ورکس‘‘ میں ہماری ان کمیونٹی کے سیکڑوں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں موجود ملتے ہیں، ہمارا یہ انسانی ورثہ اپنی سوجھ بوجھ میں نیک کام کے لیے وقت دے رہا ہے، مگر حقیقت میں ان نوجوانوں کو بہلا پھسلا کر غلط راہ پر ڈالا جارہا ہے۔ ایسے سیکڑوں نوجوان مرد اور خواتین کی سوچوں اور عملی رویوں کا مظاہرہ حالیہ انتخابات کے دوران لوگوں کو دیکھنے اور سننے کو ملا۔ برطانیہ ایک جمہوری بادشاہت ہے۔ یہ بالعموم ایک پرامن اور انصاف پسند معاشرہ ہے، جہاں لوگوں نے سیاست اور معاشرت میں شیر اور بکری کو اکٹھے پانی پیتے دیکھا ہے۔ ابتدا میں ایشیا اور افریقہ سے آنے والوں کے یہ عزائم کبھی نہ تھے کہ انہوں نے برطانیہ کے سیاسی اور معاشرتی نظام کو طاقت کے زور سے بدل کر اپنا نظام قائم کرنا ہے۔ ایسی سوچوں کے جمگھٹے ہر شہر میں موجود ہیں، اسے غیر سنجیدہ سیاست بھی کہا جاسکتا ہے اور اسے اپنے پائوں پہ خود کلہاڑی مارنا بھی کہہ سکتے ہیں۔ حالیہ انتخابات میں ہماری مسلمان کمیونٹی کے لاکھوں ووٹ ہوا میں اڑا دیے گئے، کیا اس ووٹ کو ضائع کرنے والے بتا سکتے ہیں کہ یہ مرد اور خواتین (جن کے ووٹ ضائع ہوئے ہیں۔) اب وہ اپنے مسائل کے حل کے لیے کن لوگوں سے مدد مانگیں، گزشتہ انتخابات میں نصف درجن کے قریب آزاد ممبران پارلیمنٹ بھی بنے ہیں۔ ان غیر روایتی انتخابات میں برٹش میڈیا غیر معمولی دلچسپی لے کر کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟ ایک پیچیدہ سوال ہے، لیسٹر اور ڈیو بری کے نومنتخب آزاد ممبران پارلیمنٹ (جو دونوں مسلمان ہیں۔) کے فل پیج تعارف جس میں ان کے مخالفین اور حامیوں کے تبصرے شام ہیں، شائع ہوئے ہیں، بالعموم یہ معاشرہ اسلام اور مسلمانوں کے متعلق ایک مثبت سوچ رکھتا ہے۔ انفرادی مسائل کے حل کے لیے مقامی کونسلز موجود ہیں۔ ہر مسئلہ کو مذہبی لبادہ پہنا کر یہ کمیونٹی معاشرہ کے دوسرے حصوں سے کٹ کر باعزت وقت نہیں گزار سکتی، اچھی روایات پہ عمل کرتے ہوئے ہم معاشرہ کو مزید بہتر اہم اخبارات کے تبصرے مختلف کرسکتے ہیں۔ زاریوں سے معاشرہ کی خدمت کررہے ہوتے ہیں۔ مسلمانان برطانیہ کی اکثریت برطانوی شہری ہیں۔ موجودہ قانون کہتا ہے کہ جو پیدائشی برٹش نہیں ہیں ان کی شہریت ختم کی جاسکتی ہے۔ مشہور بنگالی خاتون شمیمہ بیگم جو اس وقت شام کے ایک مہاجر کیمپ میں ہے، وہ برٹش جوان ہے، مگر حکومت نے اس کی شہریت ختم کردی ہے، کیونکہ وہ جنگجو ہے اور شام میں جہادیوں کی طرح لڑنے کے لیے گئی تھی۔ ہم مسلمانوں کو اپنے اردگرد پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہماری کمیونٹی کا بہت بڑا حصہ کسی جہاد کا حصہ بن چکا ہے۔ برطانوی سسٹم کے اکثر حصے ہماری کمیونٹیز کو اپنے اندر سمجونے کے اہل ہیں اور ہم میں سے بیشتر کے ساتھ یہ نظام آسانی سے چل رہا ہے۔ خاندانوں کے سربراہان اور کمیونٹی کے اندر بہتر سوچ رکھنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ مستقبل میں ہمارے گھرانے انتہا پسندی کی طرف نہ بڑھ پائیں۔ ہم دین سے محبت کرنے والے شریف النفس خاندان انتہا پسندی کی آگ کا ایندھن نہیں، بلکہ آگے بڑھتی مثبت سوچ رکھنے والی کمیونٹی ہیں۔