مخصوص نشستوں کا عدالتی فیصلہ آئین کے آرٹیکلز سے باہر جاکر لکھا گیا، وزیر اطلاعات

05 اگست ، 2024

لاہور (آئی این پی ) وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہا ہے کہ مخصوص نشستوں کا عدالتی فیصلہ آئین کے آرٹیکلز سے باہر جا کر لکھا گیا، اس فیصلے پر عملدرآمد کروانے کیلئے آئین کے آرٹیکل 51، 63، 106 کو معطل کرنا پرے گا ،2 ججز نے جو اختلافی نوٹ نے اکثریت کے فیصلے پر بہت بڑا سوالیہ نشان لگا دیا ہے، ان ججز ن کے ٹھائے گئے نکات کا جواب آنا انتہائی ضروری ہے۔،وہ ریلیف دیا گیا جو مانگا ہی نہیں تھا۔لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے مخصوص نشستوں سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے پر سوالات اٹھائے تھے، کل جب 2 ججز کا یہ فیصلہ آیا تو کسی کو اس پر حیرانی نہیں ہوئی کہ جو تفصیلی فیصلہ دیا گیا سپریم کورٹ کے دو ججز جسٹس نعیم افغان اور جسٹس امین الدین خان کی جانب سے، معمول یہی ہے کہ ایک فیصلہ سنانے کے 15 دن کے اندر تفصیلی فیصلہ منظر عام پر آجاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے 2 ججز کے تفصیلی فیصلے میں، جنہوں نے اختلافی نوٹ لکھا تھا، انہوں نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ کیا بات ہے کہ ابھی تک بقیہ جج صاحبان کی جانب سے تحریری فیصلہ جاری نہیں کیا گیا؟ آئین کے کچھ آرٹیکلز مخصوص نشستوں کے حوالے سے بات کرتے ہیں ان سے باہر جاکر یہ فیصلہ لکھا گیا ہے، ججز نے اختلافی نوٹ میں اس بات پر سوال اٹھایا کہ 15 دن کے باوجود تفصیلی فیصلہ کیوں نہیں جاری ہوا؎ سب سے بڑی بات یہ کہ 2 ججز جنہوں نے اختلافی نوٹ لکھا اس میں انہوں نے کہا کہ سنی اتحاد کا پارلیمنٹ میں وجود نہیں تھا حتی کہ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین تک نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑا۔ قانون کی روشنی میں 2 ججز نے جو اختلافی نوٹ لکھا ہے اور تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے اس نے اکثریت کے فیصلے پر بہت بڑا سوالیہ نشان لگا دیا ہے کہ آئین کے آرٹیکلز کو معطل کرنا پڑے گا اس فیصلے پر عملدرآمد کروانے کے لیے۔ انہوں نے بتایا کہ اس کے ساتھ ساتھ آئین کے دو آرٹیکلز میں جو دائرہ اختیار تفویض کیا گیا ہے، اس سے باہر جاکر فیصلہ کرنا پڑے گا، ہم تو پہلے دن سے کہہ رہے تھے کہ یہ ٹائم کو پیچھے کیا گیا ہے اور وہ ریلیف دیا گیا جو مانگا نہیں تھا اور ان کو دیا گیا جنہوں نے مانگا ہی نہیں تھا، وہ موجود ہی نہیں ہیں جن کو ریلیف دیا گیا، آئین و قانون میں یہ چیزیں واضح درج ہیں، اتنے آرٹیکلز، الیکشن ایکٹ 2017 کی خلاف ورزی کرنے کے بعد پھر یہ ممکن ہے کہ یہ ریلیف دیا جاسکے ایک ایسی جماعت کو جس نے عدالت کے سامنے یہ استدعا نہیں کی۔ عطا تارڑ نے کہا کہ ان ججز نے اپنے اختلافی نوٹ میں بہت صحیح نکات اٹھائے ہیں اور اس کا جواب آنا انتہائی ضروری ہے۔