دوججز کا فیصلہ ، جواب ضروری ، اٹھائے گئے نکات لیگل فریم پر سولیہ نشان ، وزیراطلاعات

05 اگست ، 2024

لاہور( نمائندہ جنگ، ایجنسیاں) وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے کہا ہے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ کے ججز نے اختلافی نوٹ میں اہم نکتے اٹھائے ہیں جن کا جواب آنا بہت ضروری ہے،2ججز کا اختلافی نوٹ اکثریتی فیصلے پر بڑا سوالیہ نشان ہے، مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے سے آرٹیکل62،63کی خلاف ورزی ہوگی ،فلورکراسنگ قانونی ہوجائیگی،مخصوص نشستوں کا عدالتی فیصلہ آئین کے آرٹیکلز سے باہر جاکر لکھا گیا۔ لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ وہ لوگ جو مخصوص نشستوں پر منتخب ہوکر حلف اٹھا چکے ہیں ان کی رکنیت ختم کردی مگر اس رکنیت کو ختم کرنے سے پہلے کے مراحل قانونی طور پر اپنی جگہ موجود ہیں، یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والوں کو سیٹوں سے فارغ کردیں مگر حلف لینے سے پہلے کے مراحل کو قانونی طور پر نہیں دیکھا گیا، یہ بڑے اچنبے کی بات ہے۔عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ یہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ سپریم کورٹ کے 2 جج یہ کہہ رہے ہیں کہ آرٹیکل 175 اور 155 میں جو دائرہ کار تفویض کیا گیا ہے کہ اس سے باہر جاکر اکثریت میں فیصلہ دیا ہے اور نا صرف یہ، انہوں نے آرٹیکل 51، 63، 106 کی بات کی ہے کہ یہ آئین کے آرٹیکل کو معطل کرنا پڑیگا اس فیصلے پر عملدرآمد کروانے کیلئے اور حقیقت بھی یہی ہے، یعنی وہ لوگ جو سنی اتحاد کے ممبر ہیں وہ کہہ ہی نہیں رہے کہ ہم نے پارٹی تبدیل کرنی ہے تو کیا وہ فلور کراسنگ ہوگی کہ وہ ایوان میں سنی اتحاد سے اٹھ کے پی ٹی آئی کی صفوں میں بیٹھیں گے؟ کیا یہ آرٹیکل 62-1 ایف اور 63 کی خلاف ورزی نہیں ہوگی؟عطا تارڑ کے مطابق اس پہ آئین واضح ہے، آئین کہتا ہے کہ وہ سیاسی جماعتیں جو پارلیمان میں موجود ہیں ان کو متناسب نمائندگی کے فارمولے کے تحت مخصوص نشستیں دی جائیں گی، کیا سنی اتحاد کونسل کا وجود پارلیمان میں موجود تھا یا نہیں تھا؟ اس کا جواب ہے کہ سنی اتحاد کا وجود پارلیمان میں نہیں تھا کیونکہ ان کے چیئرمین نے بھی آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا، جب چیئرمین نے آزاد الیکشن لڑا تو یہ غلطی پی ٹی آئی کے سابقہ ممبرز کی تھی جنہوں اس جماعت میں شمولیت اختیار کی جس کا سیاسی وجود نہیں تھا، وہ چاہتے تو ایم ڈبلیو ایم میں شامل ہوجاتے جس کا وجود موجود تھا۔ان کا کہنا تھا کہ کسی نے بھی یہ اقدام چیلنج نہیں کیا کہ یہ سنی اتحاد میں گئے تھے، یا تو اس قدم کو چیلنج کیا جاتا کسی کی طرف سے کہ ہم سنی اتحاد میں گئے اور چیلنج کرتے کہ سنی اتحاد میں نہیں جاسکتے تھے تب تو پھر پی ٹی آئی کا ممبر ان کو تصور کیا جاتا اور جو نشستوں پر منتخب ہوئے تھے، ان کی حق تلفی ہوئی ان کو بھی نہیں سنا گیا، نا ان کو بلایا گیا، ان ممبران کا پورا پراسس ہے، لسٹ گئی ہیں الیکشن کمیشن میں جسکی اسکروٹنی ہوئی پھر نوٹیفکیشن ہوا، انکی رکنیت ختم کردی گئی مگر باقی مراحل کے بارے میں بات نہیں کی گئی۔عطا تارڑ نے کہا کہ یہ دو معاملات ہیں، ایک یہ سنی اتحاد نے وہ سیٹیں مانگی جس کی وہ حقدار نہیں تھی اور پی ٹی آئی تو درخواست گزار ہی نہیں تھی تو کیا اتنا بڑا ریلیف ان کو دیا جانا چاہیے تھا؟ اس کا جواب ابھی آنا باقی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ بڑےقانونی نکات ہیں جن کا جواب ملنا اور تفصیلی فیصلہ آنا بھی ضروری ہے، ورنہ یہ تاثر جو جارہا ہے کہ ایک طرفہ ریلیف دیا گیا اس سے پورے ملک میں آئین کو دھچکا لگے گا، اور قانون کی حکمرانی کے لیے یہ سیٹ بیک ہوگا، فلور کراسنگ لیگل ہوجائے گی، ماضی میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کی گئی تو بتایا گیا کہ ووٹ ڈلے گا، وہ کاؤنٹ نہیں ہوگا، رکنیت بھی نہیں ہوگی اور اب کہا جارہا ہے کہ پارٹی بدل لیں، اور اس پارٹی میں جائیں جس کی کوئی پارلیمان میں حیثیت نہیں تھی۔