بجلی بل کم کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں، جلد ریلیف دینگے، وزیر توانائی

05 اگست ، 2024

کراچی (ٹی وی رپورٹ) وفاقی وزیر توانائی سردار اویس احمد خان لغاری نے کہا کہ ہماری حکومت قائم ہونے کے بعد وزیراعظم کی پہلی ہدایت یہی تھی کہ بجلی کو سستی کریں، بجلی کے اوپر سود اور روپے کی قدر کم ہونے کا بوجھ ہے جسکی وجہ سے بجلی کا استعمال کم ہوتا جارہا ہے، بجلی کا استعمال کم ہونے کا بھی الٹا ایک بوجھ پڑتا ہے، بجلی کے بل کم کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے، ہم فل اسپیڈ سے رواں دواں ہیں جلد ہی عوام کو ریلیف دینگے، ہماری حکومت نے جماعت اسلامی کو انگیج کیا ہوا ہے، یہ سیاسی ایشو نہیں ہے اس وقت حکومت اپوزیشن سے چار قدم آگے کام کررہی ہے،اس کے اوپر سیاست کرنے کی کوئی تک نہیں ہے،یہ حکومت جتنا اس کام میں سنجیدہ ہے اتنا آج تک کوئی نہیں رہا، حافظ نعیم الرحمن آج مناظرہ کرلیں گریٹ ڈیبیٹ کرلیں، اپنے ساتھ چار انجینئرز بھی لے آئیں میں اکیلا ان کے ساتھ بات کرنے کو تیار ہوں، ہم تمام آئی پی پیز کے کیس کو ری اسٹڈی کررہے ہیں کافی تفصیل میں پہنچ گئے ہیں۔ان خیالات کا ااظہار انہوں نے جیو نیوز کے پروگرام ”جرگہ“میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ اویس لغاری نے کہا کہ گھریلو صارفین کے اوپر18 فیصد ٹیکس ہے ۔ٹی وی فیس کم رقم ہے یہ پی ٹی وی کو سپورٹ کرنے کیلئے ہے۔مسجد کے بل میں ٹی وی فیس نہیں آنا چاہئے۔جی ایس ٹی کی شرح کسی ملک میں اتنی نہیں ہے جتنی یہاں ہے۔ ہم بجلی کے بل میں ٹیکس کا جائزہ لے رہے ہیں ۔کم آمدنی والے افراد کو حکومت سپورٹ بھی بہت کرتی ہے۔200 یونٹ سے کم صارفین کو بجلی انتہائی کم قیمت پر مل رہی ہے۔انکم ٹیکس اکثر گھریلو صارفین کو نہیں ہوتا۔انڈسٹری اور کمرشل صارفین کیلئے انکم ٹیکس ہے۔ہماری پہلی ترجیح یہی ہے کہ ہم اپنے بجلی کے بلوں کو کم کریں۔اگر ڈالر اور سود کی شرح2015ء والی ہوتی تو اس وقت فی یونٹ قیمت چھ سے سات روپے کم ہوتی۔ سرکاری افسران، وزرا ، ججزکے لئے مفت بجلی نہیں ہے۔حکومت کی جانب سے حل نکلتا دیکھ کر لوگ متحرک ہوئے ہیں۔ہم نے آئی پی پیز پر3 مہینے سے کام کیا ہوا ہے ۔ہم تمام آئی پی پیز کے کیس کو ری اسٹڈی کررہے ہیں کافی تفصیل میں پہنچ گئے ہیں۔جو چیزیں ہم سے چارج کی جارہی ہیں کون سی جائز ہیں اور کون سی ایسی ہیں جن پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ ہم ہر قسم کی انکوائری اور آڈٹ کرینگے جسکی ضرورت ہوگی اور کر بھی رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کیلئے بجلی کی پیداواری صلاحیت اتنی بنانا پڑی تاکہ بجلی پوری ہو۔گرمیوں میں بجلی کی مانگ28 ہزار میگا واٹ تک جاتی ہے۔28 ہزار میگا واٹ کیلئے پلانٹس لگانا ہوتی ہیں ۔ ان پلانٹس کی دو قسم کی قیمت ہوتی ہے۔ہماری جماعت میں یہ چیز واضح ہے کہ ہم نے کسی کا انٹرسٹ واچ نہیں کرنا۔ آئندہ چند ہفتوں اور مہینوں میں چیزیں عیاں ہوتی دکھائی دیں گے جو صرف عوام کے مفاد میں ہونگی۔پچھلی حکومت میں جان بوجھ کر سی پیک کو پیچھے کیا گیا تھا۔سی پیک کے آئی پی پیز حکومت کے نہیں ہیں جی ٹو جی کے تحت لگے تھے۔حکومت پاکستان کے پلانٹس اکثریت میں ہیں۔ جس فیڈر پر نقصان زیادہ ہوتا ہے وہاں لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔آئندہ چندمہینوں میں میٹر والاٹرانسفارمر لگائیں گے۔اگلے سال مئی کے مہینے میں ڈسکوز کی نجکاری کا پہلا اشتہار آئے گا۔خیبر پختونخوا میں تعاون کی پیشکش کی تھی ان کو بجلی کی فراہمی بھی شروع کی مگر نتائج اچھے نہیں آئے۔