کسی ادارے کو روکنا یا ترمیم کرنا پارلیمنٹ کا اختیار ہے، طلال چوہدری

05 اگست ، 2024

کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو نیوز کے پروگرام نیا پاکستان میں میزبان شہزاد اقبال سے گفتگو کرتے ہوئے ن لیگ کے رہنما طلال چوہدری نے کہا کہ کسی ادارے کو روکنا یا ترمیم کرنا پارلیمنٹ کا اختیار ہے، اقلیتی فیصلے کے نصف نکات بھی تسلیم کرلیں تو اکثریتی فیصلے کی کوئی آئینی حیثیت نہیں ، قانون بننے کے بعد اسے کوئی ادارہ محاذ آرائی سمجھ لے یہ آئین سے باہر کی بات ہے، پارلیمنٹ motherانسٹی ٹیوشن، کیسے کسی ادارے کے ماتحت ہوجائے، سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن پاکستان کنور دلشاد نے کہا کہ مخصوص نشستوں کے حوالے سے جو سپریم کورٹ آف پاکستان کا فیصلہ آیا تھا وہ اکثریتی فیصلہ تھا، اکثریتی فیصلہ آئین اور قانو ن کے مطابق اسی پر عملدرآمد کرنا پڑتا ہے ، ۔ ساری ذمہ داری اب الیکشن کمیشن آف پاکستان پر عائدہوتی ہے کہ وہ اس پر عملدرآمد کروائے۔ طلال چوہدری نے پروگرام میں کہا کہ مخصوص نشستوں کے کیس میں جو نکات دو جج صاحبان کی طرف سے اٹھائے گئے ہیں وہ قابل غور ہیں، اگر ان نکات میں سے نصف کو بھی تسلیم کر لیا جائے تو جو اکثریتی فیصلہ ہے اس کی کوئی آئینی حیثیت نہیں رہتی ،بیشتر اوقات اقلیت میں آنے والے فیصلے حق اور سچ اور آئین پر مبنی ہوتے ہیں ۔ جب مارشل لاء لگتے تھے جب مارشل لاء کو عدالتیں دوام دیتی تھیں ligitmate کرتی تھیں تو اس وقت بھی جو مارشل لاء کے خلاف ہوتے تھے تو کئی دفعہ اقلیتی فیصلے ہوتے تھے ،کئی دفعہ اقلیتی فیصلے تاریخ میں یاد رکھے جاتے ہیں ،بے شک اکثریت فیصلہ کرے کچھ وقت پر اس پر عملدرآمد بھی ہوجائے لیکن اقلیتی فیصلوں کی اہمیت تاریخ میں اہم ہے اور جو نکات اس پر اٹھائے گئے ہیں وہ قابل غور ہیں۔ کاش پارلیمنٹ اس پر پہلے غور کرتی میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں جب تک پارلیمنٹ نہیں بنے گی پارلیمنٹ جب تک میونسپل کارپوریشن بنی رہے گی اسی طرح انکروچ ہوتا رہے گا ۔ اسی طرح ان کی اسپیس لی جاتی رہے گی ۔ جج صاحبان نے نہ صرف پارلیمنٹ کو بھی باقی اداروں کو بھی جگایا ہے۔کہ آپ اپنی ذمہ داریوں کو دیکھیں۔طلال چوہدری نے کہا کہ کئی دفعہ اقلیتی فیصلے تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے جاتے ہیں اس کی مثال میں نے جب آمریت کو مہر عدالتیں لگاتی ہیں کہ وہ بالکل ٹھیک ہے اس وقت بھی کئی دفعہ اقلیت ایک سائیڈ پر ہوجاتی ہے میں نے چند فیصلوں کی بات کی ہے اور اس بات کا فیصلہ تاریخ بھی کرے گی اور آئین اور قانون کو سمجھنے والے بھی کریں گے۔ کیا اس نکات جو دو ججز صاحبان نے اٹھائے ہیں قابل غور ہیں کہ نہیں ہیں۔ مجھے صرف اتنا بتا دیں میں بھی قانون کا طالب علم ہوں میرے لیے تشویش کی بات ہے سپریم کورٹ آف پاکستان میں اتنی بڑی تقسیم ہو آئین اور قانونی معاملات پر۔ن لیگی رہنما نے کہا کہ عملدرآمد وہی ہونا چاہیے جو قانون میں یا آئین میں دیا گیا ہے۔ اگر آرمی ایکٹ اور اس میں ایک رولز جس میں توسیع دی جاتی ہے آرمی چیف کو وہ رول نہ ہو تو آپ ریفرکردیتے ہیں پارلیمنٹ کو معاملہ کہ چھ مہینے میں قانون سازی کریں اگر آئین خاموش ہے کلیئر نہیں ہے اس کلیئرٹی مانگنے کے لیے پارلیمنٹ کو نہیں بھیجتے بلکہ اپنا مرضی کا آئین اکثریت ہے جو یا جو وہ لکھ کر دے دیتے ہیں۔ آئین بنانا پارلیمنٹ کا کام ہے۔ اس پارلیمنٹ کو پارلیمنٹ بننا ہوگا۔ جو پارلیمنٹ میونسپل کارپوریشن بنتی ہے جو اپنا بنایا ہوا وزاعظم بچا سکتی ہے نہ اپنا بنایا ہوا آئین بچا سکتی ہے اور ان کے سامنے ری رائٹ ہوتے ہیں آئین یہ آنکھیں بند کر کے بیٹھی رہتی ہیں۔ اس پر کس کو اختلاف نہیں ہے کہ یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جو ری رائٹ کیا گیا۔ یا ایک نیا قانون بنایا گیا یہ کہہ سکتے ہیں۔ طلال چوہدر ی نے کہا کہ ہماری تاریخ یہ ہے نوازشریف تاحیات نااہل ہوئے انہوں نے فیصلہ تسلیم کیا بعد میں اس پر اعتراض ہوا ۔ ہم نے ہمیشہ سے ہی فیصلوں کے سامنے سر تسلیم خم کیا ہے۔ لیکن معاملہ یہ ہے کہ اتنی انکروچ ہوتے ہوتے پارلیمنٹ کی اسپیس بالکل میونسپل کارپوریشن جتنی رہ گئی جب دل کرے آئین بنا ڈالیں ، ری رائٹ کر دیں، اپنی مرضی کی تشریح کردیں۔ پارلیمنٹ کا اختیار ہے بہت دفعہ سپریم کورٹ فیصلے کرتی ہے کہ اس کا اطلاق فلاں وقت سے ہوگا اور ہوتا ہے اور اسی طرح مجھے یہ بتائیے جب آمریت میں کئی ترمیم کر دی جاتی ہیں سب کچھ کر دیا جاتا ہے پھر پارلیمنٹ کے سامنے رکھا جاتا ہے پھر پارلیمنٹ کہتی ہے چلو جو ہوگیا سو ہوگیا اس پر مہر لگا دیتی ہے تو وہ بھی تو ہوجاتا ہے ۔ اب یہ پارلیمنٹ کا اختیار ہے وہ اس کو 2017 سے لاگو کرے یا آج سے لاگو کرے اور جو وہ بہتر سمجھیں گے قانون اور ایسے بنتے رہے ہیں۔طلال چوہدری نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ٹھنڈے دل سے میری بات سمجھ لیں پارلیمنٹ کے بنائے گئے قانون اور آئین کی وجہ سے سپریم کورٹ بنی ہے پارلیمنٹ چاہے تو کسی ادارے میں جو چاہے کرسکتی ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ پارلیمنٹ پر لاگو کیا جاسکتا ہے یا پارلیمنٹ سے بڑا ادارہ بنا جاسکتا ہے کسی فیصلے سے نہیں۔ پارلیمنٹ جب چاہے کوئی فیصلہ کوئی نیا فیصلہ یا کوئی ریورٹ کرنا یا کسی ادارے کو کسی کام سے روکنا یا اس میں کوئی ترمیم کرنا یہ اس کا اختیار ہے اور اگر یہ پارلیمنٹ نے یہ بھی نہیں کرنا تو کیا ہم صرف ٹی اے ڈی اے لینے کے لیے وہاں بیٹھے ہوئے ہیں پھر تو کوئی کام نہیں یہ قانون سازی ہمارا حق ہے اور مجھے یہ بتائیں اٹھارہویں ترمیم کے بعد کہا گیا تھا کہ انیسویں ترمیم کریں یہ ہمیں پسند ہے اس وقت انہوں نے کردی تو پارلیمنٹ بڑی اچھی تھی جب کہا گیا توسیع دینی تھی آرمی چیف کو وہ بھیجا گیا وہ ہم نے کردی تو بڑے اچھے تھے اب ہم مرضی سے قانون بنائیں تو پارلیمنٹ اچھی نہیں ہے۔ لیگی رہنما نے کہا کہ پاکستان میں جو آئین ہے اس کو سمجھنے کی کوشش کریں وہ کس تھیوری پر بنے تھا ۔ پارلیمنٹ کو قانون سازی وقت کے حساب سے کوئی نہیں روک سکتا ۔ اگر ہم سمجھتے ہیں کسی جگہ سپریم کورٹ نے یا کسی ادارے نے غلط تشریح کر دی ہے یا وہ یہاں پر مزید قانون سازی کی ضرورت ہے ، طلال چوہدری نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ مجھے یہ بتا دیں یہ جو آپ کہہ رہے ہیں کہ پارلیمنٹ جو ہے وہ ماتحت ادارہ بن جائے کسی ادارے کو کوئی چیز پسند نہیں آتی اس کے بعد پارلیمنٹ کہے کہ ہمیں صلح کر لینی چاہیے یہ آپ نے کیسے سوچ لیا کہ پارلیمنٹ اگر بنائے ہوئے قانون کے بعد اس کو کوئی ادارہ محاذ آرائی سمجھ لے یہ تو بالکل آئین سے باہر کی بات کر رہے ہیں۔ یعنی اگر پارلیمنٹ نے اوور سائیڈ نہیں کرنا، محاذ آرائی کسی برابر والے سے کریں mother انسٹیٹیویشن ہے جس نے پیدا کیا سپریم کورٹ کو باقی اداروں کو،طلال چوہدری… اگر ہمیں کوئی اتنی ضرورت ہوتی تو یہ بیس سیٹیں مہینہ ڈیڑھ مہینہ ممبر لوگ رہے ہیں صوبوں کے بھی وفاق کے بھی اس وقت پہلے دن ہی کر لیتے ہر چیز کے لیے آپ ایک منفی سوچ یا سازش سوچ لیتے ہیں ۔ کیا 63-A کو حمزہ شہباز کے کیس میں پہلے، مخصوص نشستوں سے متعلق طلال چوہدری نے کہا کہ کون کہہ رہا ہے اس پر ہمارا حق بنتا ہے۔ ہمیں جتنی سیٹیں ملیں وہ ہمیں ملنی چاہیں تھیں لیکن جس کا حق نہیں بنتا آپ اس لیے تو نہیں دے سکتے کہ کیوں کہ یہ اب کسی کی نہیں خالی پڑیں ہیں تو فلاں کو مل جائے یہ مجھے بڑا پسند ہے اچھے لوگ ہیں لاڈلے ہیں ان کو دے آؤ ، سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن پاکستان کنور دلشاد نے کہا کہ مخصوص نشستوں کے حوالے سے جو سپریم کورٹ آف پاکستان کا فیصلہ آیا تھا وہ اکثریتی فیصلہ تھا۔ اکثریتی فیصلہ آئین اور قانو ن کے مطابق اسی پر عملدرآمد کرنا پڑتا ہے ، ساری ذمہ داری اب الیکشن کمیشن آف پاکستان پر عائد کی کہا کہ وہ تو آئین کے آرٹیکل 106 کے تحت 75 کے تحت اس میں باقاعدہ شیڈول دیں اور پندرہ دن کے اندر سات دن کے اندر اپنے کاغذات جمع کرائیں ۔ اب یہاں تحریک انصاف ، یا سنی اتحاد کونسل کا فرض بنتا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کی روشنی میں اس پر عملدرآمد کرے اور کاغذات نامزدگی جمع کرائے یہ بہت بڑا ان کو اعزاز ملا ہے ریلیف ملا ہے آئین اس کی تشریح کرتی ہے انہوں نے خاص ریلیف دیا ہے جو عام طور پر آئین کے آرٹیکل 224 کے تحت وہ مثبت تھے ہی نہیں لیکن بہرحال اب اجازت مل گئی ہے تو اپنے خواتین کی مخصوص نشستیں ، اور اقلیتی کی نشستیں جو ہیں ان کے کاغذات نامزدگی اور الیکشن میشن آف پاکستان میں جمع کرائیں باقاعدگی کے ساتھ اس پر الیکشن کمیشن سیکورٹنی کرنے گا اس پر باقاعدہ جو طریقہ کار ہوتا ہے اس کے مطابق لیکن ابھی تک جو نہیں کیا سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کی خلاف ورزی کی ہے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کو یہ اچھا خاصہ ایک پوائنٹ مل گیا ہے کہ چونکہ انہوں نے ابھی تک جمع نہیں کرایا ہے تو وہ بھی اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرسکتی ہیں۔ یہ بہت اہم فیصلہ ہے۔اگر انہوں نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کی روشنی میں بتا رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن سپریم کورٹ میں چلا گیا ہے تو پھر سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کریں یہ پیچیدہ مسئلہ ہوگیا ہے اس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ سینٹ کی گیارہ نشستیں پختونخوا کی خالی ہیں اوروہاں کا سینٹ نامکمل ہے۔ اسی طرح قومی اسمبلی میں بھی بہت اہم تبدیلی آرہی ہے خواتین کے مخصوص نشستیں دینے پر یہ سارے معاملات جو ہیں ان کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں دوبارہ ازسر نو کوئی فیصلہ کرنا پڑے گا۔ کنور دلشادنے کہا کہ ہمارے جو وفاقی وزراء ہیں وہ سپریم کورٹسپریم کورٹ آف پاکستان کے اقلیتی کے حوالے سے دیکھا جائے اس پر رائے نہیں دینی چاہیے اس وقت سپریم کورٹ آف پاکستان اگر پہلے جو آرڈر جاری کیا تھا کہ ایسا نہ کریں لیکن بہرحال وہ کر رہے ہیں وہ آئین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ وفاقی حکومت کو اس کا حصہ بننا ہی نہیں چاہیے یہ الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ آف پاکستان ، سنی اتحاد کونسل کا معاملہ ہے وہ اپنا فیصلہ کرتے رہیں جو وفاقی حکومت ہے اس کو مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔