تہران کا سعد آباد کمپلیکس ہائی سکیورٹی زون میں شمار ہوتا ہے کیونکہ یہاں ایرانی صدر کی رہائشگاہ سمیت کئی حساس تنصیبات ہیں ۔یہا ں ایک کثیرالمنزلہ عمارت میں حماس کے رہنما اسماعیل ہانیہ قیام پذیر تھے ۔وہ پہلے بھی کئی بار علانیہ اور خفیہ دوروں پر ایران آتے رہے ہیں مگر اس بار ان کی آمد کا مقصد ایرانی صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت کرنا تھا۔31جولائی 2024ء کو مقامی وقت کے مطابق دوپہرایک بج کر 37منٹ پراس عمارت کی چوتھی منزل پر دھماکے کی آواز سنائی دی ۔جب سکیورٹی اہلکاروہاں پہنچے تو کمرے کی دیواریں منہدم ہوچکی تھیں اور وہاں موجود اسماعیل ہنیہ اور ان کے ذاتی محافظ شہید ہوچکے تھے ۔تب سے اب تک سرتوڑ کوشش کے باوجود یہ گتھی نہیں سلجھائی جاسکی کہ آخر یہ حملہ ہوا کیسے؟سکیورٹی کی ناکامی اور انٹیلی جنس حکام کی غفلت پر بعد میں بات کرتے ہیں لیکن پہلے یہ معمہ تو حل کرلیں کہ آخر اسرائیلی حکام اس قدر precisionاورaccuracyکے ساتھ ہدف کو نشانہ بنانے میں کیسے کامیاب رہے ؟امریکی اخبارنیویارک ٹائمز نے دعویٰ کیا کہ پہلے سے نصب کئے گئے بم کے ذریعے اسماعیل ہنیہ کو قتل کیا گیا اور یہ بم ایرانی ایجنٹوں کے ذریعے دو ماہ پہلے لگایا گیا تھا۔مگر ایرانی حکام کا موقف ہے کہ یہ کارروائی کسی فضائی پروجیکٹائل یا میزائل کے ذریعے عمل میں آئی اور اس کیلئے صرف 7کلوگرام بارود استعمال کیا گیا۔آپ ایک لمحے کیلئے صرف اس پہلو پر غو ر کیجئے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان کم سے کم فاصلہ بھی 1724کلومیٹر پر محیط ہے ۔دشمن کو نہ صرف یہ معلوم ہے کہ مطلوب فرد کہاں موجود ہے بلکہ اس کے پاس یہ صلاحیت اور ٹیکنالوجی بھی ہے کہ وہ پوری عمارت کوملیامیٹ کرنے یا چوتھے فلور کو نشانہ بنانے کے بجائے صرف اس کمرے پر حملہ کرسکتا ہے جس میں وہ شخص موجود ہے ۔آپ مسلکی تعصب کے پیش نظر اپنی توپوں کا رُخ ایران کی طرف کرکے دل کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتے ہیں تو ضرور کریں۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایران اپنے جرنیل قاسم سلیمانی کو نہ بچا سکا۔سابق ایرانی صدرابراہیم رئیسی پراسرار ہیلی کاپٹر حادثے میں چل بسے تو ان حالات میں اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر ملی بھگت کی باتیں کیوں ہورہی ہیں؟یقیناً ایران کی سرزمین پر یہ حملہ ایرانی حکام کیلئےنہایت شرمندگی کی بات ہے کیونکہ ایران کی سالمیت اور خودمختاری کی خلاف ورزی کی گئی ہے ۔اگر ایران اپنے ملک میں موجود مہمان شخصیات کی حفاظت نہیں کرسکتا تو کل کوئی بھی غیر ملکی مہمان تہران جانے سے پہلے کئی بار سوچے گا۔لیکن یہ صرف ایران کا المیہ نہیں ہے ،بیشتر مسلم ممالک اسی طرز کی دفاعی کمزوریوں کا شکار ہیں۔عرب اسرائیل جنگوں میں کیا ہوا ؟تمام عرب ممالک ملکر بھی اسرائیل کو شکست نہیں دے سکے ۔2 مئی کو ایبٹ آباد آپریشن کے دوران کیا ہوا؟اگرچہ اسامہ بن لادن سرکاری مہمان نہیں تھے مگر کیا ہم اپنی جغرافیائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے امریکی ہیلی کاپٹروں کو نشانہ بنا سکے ؟ایران نے اسماعیل ہنیہ کی موت کا بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے۔جوش و جذبات سے بھرپور بیانات داغنے کا مقابلہ جاری ہےلیکن کیاہوگا؟جس طرح قاسم سلیمانی کی موت کا بدلہ لینے کیلئے پاسداران انقلاب نے 200سے زائد ڈرون اور کروز میزائل اسرائیل پر داغے تھے ؟کیا اسی طرح کی کارروائی سے دل بہلانے کی کوشش کی جائے گی؟ان سب میزائلوں کو اسرائیل کے دفاعی نظام کے ذریعے راستے میں ہی تباہ کردیا جائے گا یا پھر کوئی ایک آدھ میزائل کسی ویران علاقے میں جا گرے گا۔
مولانا ابواکلام آزاد نے یورپ کے عہد تاریک سے متعلق ایک واقعہ اپنی کتاب ’’غبار خاطر‘‘میں بیان کیا ہے۔یہ وہ دور تھا جب یورپ مذہب کے مجنونانہ جوش و خروش کا علمبردار تھا جبکہ مسلمان جدید ترین ہتھیاروں کے ساتھ برسرپیکار ہو اکرتے تھے۔یورپ دعائوں اور خدا کی مدد کا قائل تھا جب کہ مسلمان اسباب کی طرف مائل ۔جب مصری فوجوں نے منجنیقوں کے ذریعے فرانسیسی افواج پر آگ برسانا شروع کی تو ژواین ویل کی سرگزشت کے مطابق لار ڈ والٹر جواچھا نائٹ تھا ،اس نے فوجیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ،ہم پر بہت مشکل وقت آن پڑا ہے۔اگر ہم ان برجیوں کو چھوڑ کر فرار ہوگئے تو ہماری عزت پر حرف آئے گا اور اگر یہاں ڈٹ کر کھڑے رہے تو برجیوں کے ساتھ ہی جل کر خاک ہو جائیں گے۔تو آپ سب یوں کریں کہ گھٹنوں کے بل جھک جائیں اور اپنے نجات دہندہ خداوند سے دعا مانگیں کہ وہ اس مصیبت میں ہماری مدد کرے۔چنانچہ ایمان کی دولت سے مالامال یہ فرانسیسی فوجی کچھ ہی دیر میں جل کر خاکستر ہوگئے اور خدا مدد کو نہ آیا۔یہ تو 13ویں صدی کی بات تھی ۔اسکے بعد حالات یکسر بدل گئے ۔کافر شمشیر اور اپنی قوت بازو پر بھروسہ کرنے لگے جبکہ مسلمانوں کے ہاں بے تیغ لڑنے کا درس دیا جانے لگا۔اور اس کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے ۔یہ جذباتی تقریروں ،نعروں اور تیر و تفنگ کا زمانہ نہیں ہے ۔جب مسلمانوں نے فتوحات کیں تو ان کے پاس اسباب تھے ،اس زمانے کے اعتبار سے جدید ترین ہتھیار ہوا کرتے تھے ۔آج بھی اگر اپنی کھوئی ہوئی میراث کو پانا چاہتے ہیں ،عظمت رفتہ حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں تو علم و تحقیق کا راستہ اختیار کرنا ہوگا ۔جدید ٹیکنالوجی تک دسترس حاصل کرنا ہوگی تاکہ آپ کو یہ تو معلوم ہوسکے کہ دشمن نے کئی منزلہ عمارت کے چوتھے فلو ر پر ایک مخصوص کمرے کو نشانہ بنانے کیلئےکیا طریقہ کار اختیار کیا۔آپ نے ٹرکوں کے پیچھے لکھا ایک جملہ تو پڑھا ہوگا’’پاس کر یا برداشت کر‘‘۔اس جملے میں زندگی کا فلسفہ پنہاں ہے ۔’’اِب کے مار‘‘والی روش ترک کرکے دشمنوں سے آگے نکلنے کی کوشش کریں یا پھر جلنا اور کڑھنا چھوڑ دیں ۔
مزید خبریں
-
سُنا یہ ہے کہ سابق مقتدر کوہَوائوں میں سفر یاد آرہا ہے جو لے جاتا تھا دفتر اور گھر تک وہ ہیلی کاپٹر یاد آرہا...
-
سری لنکانے جن تامل جتھوں کیخلاف طویل جنگ لڑی انھیں بھارت کی مکمل مالی پشت پناہی حاصل رہی ، کئی دہائیوں تک...
-
آج سے چار سال قبل ماہ رمضان کے بائیسویں روزہ کو والد محترم ایم طفیل جنہیں سب پا جی کے نام سے پکارتے تھے چند...
-
ملک کی سیاسی جماعتوں میں اختلاف رائے جمہوریت کاحسن ہے۔ اختلافات تو ایک گھرکے افراد کے درمیان بھی ہوجاتے ہیں...
-
وہ مجھے کہتی رہی مجھے خاص ہی رہنے دے، مجھے عام نہ کر ! لیکن ہم اپنی عادت سے مجبور تھے ، ہم سمجھتے رہ گئے کہ خاص...
-
مریم نواز کی حکومت کے ایک سال کے دوران سرکاری شاہراہوں اور املاک پر کی جانے والی تجاوزات ختم کرنے کیلئے کیے...
-
افسوس صد افسوس! ہم اور ہمارا بوسیدہ نظام بُری طرح ناکام ہو رہا ہے۔ حکمران اقتدار کے نشے میں چور ، طاقتور اسی...
-
بلوچ علیحدگی پسند اور انکےآقابلوچستان کے خلاف متحرک ہیں اور اپنے مذموم مقاصد کیلئے بے گناہ شہریوں کو موت کے...