دوججز کا فیصلہ ، جواب ضروری ، اٹھائے گئے نکات لیگل فریم پر سولیہ نشان ، وزیراطلاعات

05 اگست ، 2024

لاہور(خصوصی نمائندہ/مانیٹرنگ ڈیسک) حکومت نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے 2ججز کا اختلافی نوٹ اٹھائے گئے نکات لیگل فریم ورک پر بڑا سوالیہ نشان ہے۔ وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات عطا تارڑ کا کہنا ہے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ کے ججز نے اختلافی نوٹ میں اہم نکتے اٹھائے ہیں جن کا جواب آنا بہت ضروری ہے،2ججز کا اختلافی نوٹ اکثریتی فیصلے پر بڑا سوالیہ نشان ہے،مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے سے آرٹیکل62،63کی خلاف ورزی ہوگی ،فلورکراسنگ قانونی ہوجائیگی جبکہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کا اکثریتی فیصلہ آئین سے متصادم اور متنازع ہے۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ دو ججوں کا اختلافی نوٹ، بار کونسل کی قرارداد اور آئینی ماہرین کی رائے کو ملا کر دیکھا جائے۔اس کو پشاور ہائیکورٹ کے پانچ رُکنی بینچ کے متفقہ فیصلے سے ملا کر دیکھا جائے۔سینیٹر عرفان صدیقی کا مزید کہنا تھا کہ 12 جولائی کا 8 جج صاحبان کا فیصلہ آئین و قانون کی شقوں سے متصادم ہے۔ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر اطلاعات کا کہنا تھا معمول یہی ہے کہ ایک فیصلہ سنانے کے 15 دن کے اندر تفصیلی فیصلہ منظر عام پر آجاتا ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ وہ لوگ جو مخصوص نشستوں پر منتخب ہوکر حلف اٹھا چکے ہیں ان کی رکنیت ختم کردی مگر اس رکنیت کو ختم کرنے سے پہلے کے مراحل قانونی طور پر اپنی جگہ موجود ہیں ،بہت بڑا سوالیہ نشان ہے 2 جج یہ کہہ رہے ہیں کہ آرٹیکل 175 اور 155 میں جو دائرہ کار تفویض کیا گیا ہے کہ اس سے باہر جاکر اکثریت میں فیصلہ دیا ہے اور نا صرف یہ، انہوں نے آرٹیکل 51، 63، 106 کی بات کی ہے کہ یہ آئین کے آرٹیکل کو معطل کرنا پرے گا اس فیصلے پر عملدرآمد کروانے کے لیے اور حقیقت بھی یہی ہے، یعنی وہ لوگ جو سنی اتحاد کے ممبر ہیں وہ کہہ ہی نہیں رہے کہ ہم نے پارٹی تبدیل کرنی ہے تو کیا وہ فلور کراسنگ ہوگی کہ وہ ایوان میں سنی اتحاد سے اٹھ کے پی ٹی آئی کی صفوں میں بیٹھیں گے؟ کیا یہ آرٹیکل 62-1 ایف اور 63 کی خلاف ورزی نہیں ہوگی؟ یہ دو معاملات ہیں، ایک یہ سنی اتحاد نے وہ سیٹیں مانگی جس کی وہ حقدار نہیں تھی اور پی ٹی آئی تو درخواستگزار ہی نہیں تھی تو کیا اتنا بڑا ریلیف ان کو دیا جانا چاہیے تھا؟ اس کا جواب ابھی آنا باقی ہے ۔