الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم نجی قانون سازی ہوگی

05 اگست ، 2024

اسلام آباد (محمد صالح ظافر خصوصی تجزیہ نگار) الیکشن ایکٹ مجریہ 2017ء کی دوسری ترمیم آج (پیر) کو قومی اسمبلی سے منظور ہو نے کے بعد سینیٹ کی منظوری کے لئے ارسال ہوگی تو اس کی حیثیت پارلیمنٹ کی نجی قانون سازی کی ہوگی جس میں حکومت کا براہ راست کوئی عمل دخل نہیں ہوگا اور کسی عدالت یا اتھارٹی کے لئے ممکن نہیں ہوگا کہ وہ اس قانون کو بنانے میں کسی جماعت یا حکومت کو ذمہ دار قرار دے سکے۔انتہائی اہم ترمیم آج صبح قومی اسمبلی میں پیش ہوگی تو قائد ایوان وزیراعظم شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری ایوان میں موجود نہیں ہونگے حد درجہ لائق اعتماد ماہرین آئین نے اتوار کو ’’جنگ‘‘ کے خصوصی سنٹرل رپورٹنگ سیل کو بتایا ہے کہ الیکشن ایکٹ مجریہ 2017ء کی دوسری ترمیم مجریہ 2024ء کو کمال مہارت اور چابکدستی سے سرکاری چھاپ سے محفوظ رکھا گیا ہے یہ مسودہ قانون پاکستان مسلم لیگ نون کے دو ارکان قومی اسمبلی بلال اظہر کیانی اور محترمہ زیب جعفر نے قومی اسمبلی میں پیش کیا تاہم انہوں نے یہ بل ارکان کی نجی کارروائی کے دن گزشتہ ہفتے ذاتی حیثیت میں متعارف کرایا اسپیکر سردارایاز صادق نے قومی اسمبلی کے قواعد کار کی رو سے اسے پارلیمانی امورکی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کے جائزے کے لئے بھیج دیا جس کا اجلاس کمیٹی کے چیئرمین رانا محمد ارادت شریف کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں محرک کے علاوہ قانون و انصاف اور پارلیمانی امور کے وفاقی وزیر سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے بلحاظ منصب رکن کے طور پر شرکت کی انہوں نے اس قانون کی افادیت بڑے مدلل انداز میں کمیٹی کے روبرو ثابت کی اور اسے منظور کرنے کے لئے دلائل کا انبار لگادیا۔ سنی اتحاد کونسل سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر مملکت انجینئر علی محمد خان ایڈووکیٹ نے کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے اس بل کی سخت لفظوں میں مخالفت کی اور اسے خلاف آئین قرار دیا، انہوں نے اس امر پر بھی اعتراض کیا کہ وفاقی وزیر پارلیمانی امور اس بل کی کیوں حمایت کررہے ہیں حالانکہ یہ سرکاری بل نہیں ہے ،سینیٹر تارڑ نے موقف اختیار کیا کہ وہ انہیں مسودہ قانون کو درست اور ضروری سمجھتے ہیں اور اس کی افادیت کے قائل ہیں اس بنا پر وہ اس کی تائید کررہے ہیں بحث کے دوران ان دونوں کے درمیان بار بار جھڑپ ہوتی رہی اور سخت جملوں کا تبادلہ ہوا حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے ارکان کا موقف تھا کہ یہ قانون سپریم کورٹ کے ایک اکثریتی فیصلے کو غیر موثر اور ناکارہ بنانے کے لئے بنایا جاہا ہے جس کی رو سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستیں تحریک انصاف کو مل جائیں گی جو قبل ازیں الیکشن کمیشن نے ایوانوںمیں موجود دوسری جماعتوں کو ان کی عددی قوت کے تناسب سے تفویض کردی تھیں ایسے ارکان نےخیبر پختونخوا اسمبلی کے سوا تمام ایوانوںمیں رکنیت کا حلف اٹھا کر اپنے فرائض کی انجام دہی بھی شروع کردی تھی۔ حکومتی ارکان نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے نقائص اور اس کے آئین کے منافی ہونے کے بارے میں نشاندہی کی۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ دو روز قبل سپریم کورٹ کے دو فاضل ارکان نے اکثریتی فیصلے کے خلاف اپنا فیصلہ جاری کرتے ہوئے واضح کردیا تھا کہ اگر اکثریتی فیصلے پر عمل درآمد ہونا ہے تو اس کے لئے آئین کی متعدد دفعات کو معطل کرنا پڑے گا۔ دونوں جج صاحبان نے ان دفعات کی بھی نشاندہی کردی تھی جس کے بعد پورے ملک میں قانون دان حلقوں نے اکثریتی فیصلے کے خلاف صدائے احتجاج بلند کردی ہے اور تقاضا کیا جارہا ہے کہ سپریم کورٹ کا فل بنچ اس فیصلے پر نظرثانی کے لئے دائر اپیلوں کی بلاتاخیر سماعت کرے جس کا اجلاس فنی وجوہ سے بروقت منعقد نہیں ہورہا۔ اس دوران ذرائع نے بتایا ہے کہ دو ارکان قومی اسمبلی کے نجی بل پر کسی جگہ حکومتی مہر ثابت نہیں ہوتی اس بل کو وفاقی کابینہ میں زیر غور نہیں لایا گیا حکومتی پارلیمانی جماعت میں اس کی منظوری کا ذکر نہیں ہوا اور وزیراعظم شہباز شریف نے اس کے بارے میں کسی سطح پر ایک لفظ اپنی زبان سے ادا نہیں کیا حتی کہ تین روز قبل حکمران اتحاد میں شامل پارلیمانی جماعتوں کے مشاورتی اجلاس کے بارے میں جو اعلامیہ جاری کیا گیا اس میں اس بل کے حوالے سے ایک لفظ بھی درج نہیں تھا