بنگلہ دیش، جھڑپیں، 93 ہلاک، طلبا اتحاد کی سول نافرمانی تحریک، عوامی لیگ اور پولیس کے ساتھ تصادم، دوبارہ کرفیو نافذ

05 اگست ، 2024

کراچی، ڈھاکا (نیوز ڈیسک، اے ایف پی) بنگلہ دیش میں کوٹہ سسٹم کیخلاف سراپا احتجاج طلباء اتحاد نے ملک بھر میں سول نافرمانی کی تحریک شروع کردی، ڈھاکا سمیت تمام چھوٹے بڑے شہروں میں احتجاجی مظاہرے، حکمران جماعت عوامی لیگ ، اس کی طلباء تنظیم چھاترا لیگ اور پولیس کیساتھ مظاہرین کی جھڑپیں، کم از کم 93افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوگئے،زخمیوں میں سے بیشتر کو براہ راست گولیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے ، مرنے والوں میں 14پولیس اہلکار ، احتجاجی طلباء کی بڑی تعداد کیساتھ ساتھ حکمران جماعت عوامی لیگ اور ان سے منسلک ذیلی تنظیموں کے کارکنان ، اپوزیشن جماعت بی این پی اور ان کی ذیلی طلباء تنظیم کے کارکنان بھی شامل ہیں، مختلف شہروں میں جلاو گھیراو، ملک بھر میں دوبارہ کرفیو نافذ کردیا گیا ،ٹرین سروس معطل ، عدالتوں کو غیر معینہ مدت تک بند کردیا گیا ، انٹرنیٹ سروس بھی معطل کردی گئی، فیس بک اور واٹس ایپ سمیت سماجی رابطوں کی ویب سائٹس تک رسائی میں مشکلات کا سامنا ، وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے کہا ہے کہ سڑکوں پر نکلنے والے طلباء نہیں دہشتگرد ہیں ، انہیں کچل دیں گے ،سکیورٹی کابینہ کے اجلاس کے بعد حسینہ واجد نے کہا کہ عوام ان دہشتگردوں کیساتھ سختی سے نمٹیں ، ملک بھر میں تین روزہ عام تعطیل کا بھی اعلان کردیا گیا ، بنگلادیش کے آرمی چیف جنرل وقار الزمان نے کہا کہ فوج عوام کے اعتماد کی علامت ہے اور اسے ٹھیس نہیں پہنچائیں گے، ہم ہمیشہ اپنے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں، ہماری افواج عوام کی حفاظت کی خاطر اور ریاست کی کسی بھی ضرورت کے لیے مستعد اور مکمل طور پر تیار ہیں، فوج نے ایک بیان میں شہریوں پر زور دیا ہےکہ وہ کرفیو کی پابندیوں پر عملدرآمد یقینی بنائیں ، بنگلہ دیش کے سابق آرمی چیفس اور آرمی افسران نے ملک کی مسلح افواج سے عام طلبہ کے ہجوم کا سامنا نہ کرنے کی اپیل کی ہے۔ امتیازی سلوک کے خلاف سراپا احتجاج طلباء نے کرفیو کا نفاذ مسترد کرتے ہوئے آج (پیر کو) "ڈھاکا کی طرف مارچ " کا اعلان کردیا ہے ، مظاہرین کا ایک ہی مطالبہ ہے شیخ حسینہ کی زیرقیادت حکومت مستعفی ہو ، احتجاجی طلباء نے ملک بھر کے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ احتجاجی مارچ میں شریک ہوں ۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے کہا کہ بنگلہ دیش میں "حیران کن تشدد" ختم ہونا چاہیے، انہوںنے حکومت پر زور دیا کہ وہ پرامن مظاہرین کو نشانہ بنانا بند کرے۔ قبل ازیں احتجاجی مظاہروں کے پرتشدد شکل اختیار کرنےکے بعد مختلف شہروں میں مظاہرین نے متعدد گاڑیوں، عمارتوں اور املاک کو آگ لگادی،مقامی اخبار کے مطابق مشتعل افراد نے ٹیکسٹائل ، گارمٹنٹس ملزاور پلاسٹک سمیت پانچ ملز کو بھی جلا دیا ، کئی علاقوں میں مظاہرین پر مسلح جتھوں نے حملے کئے اور انہیں چن چن کر گولیوںکا نشانہ بنایا گیا ، صرف ڈھاکا میں 12افراد فائرنگ اور دیگر پرتشدد واقعات میں مارے گئے جن میں یونیورسٹیوں کے طلباء بھی شامل ہیں۔ سراج گنج کے علاقے میں 18افراد پرتشدد واقعات میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جن میں 13 پولیس اہلکار بھی شامل ہیں ۔