ڈھاکا (اے ایف پی، نیوز ڈیسک) بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد ایک ماہ سے جاری عوامی احتجاج کے بعدملک سے فرار ہوگئیں ، پارلیمیٹ فوج نے اقتدار سنبھالتے ہی عبوری حکومت بنانے کا اعلان کردیا ،بنگلہ دیش کے صدر محمد شہاب الدین نے پارلیمنٹ تحلیل کردی ، اپوزیشن رہنما اور سابق وزیراعظم خالدہ ضیاء اور تمام گرفتار مظاہرین کی رہائی کا حکم ، بنگلہ دیش میں طلبا تحریک کے مرکزی رہنما ناہید اسلام نے اعلان کیا ہے کہ چاہے فوجی حمایت یافتہ حکومت ہو یا ہنگامی حالات کے تحت قائم کیا گیا صدارتی نظام، طلبہ ایسی کسی حکومت کو قبول نہیں کریں گے جو ان کی تجویز کردہ نہ ہو، آئندہ 24 گھنٹوں کے دوران عبوری قومی حکومت کی تجاویز پیش کریں گے، پیر کے روز طلباء اتحاد کی کال پر لاکھوں افراد نے ڈھاکا کی طرف احتجاجی مارچ کیا ، مظاہرین نے وزیراعظم حسینہ واجد کی سرکاری رہائشگاہ ، وزراء اور چیف جسٹس کے گھروں پر حملہ کردیا،پیر کے روز پرتشدد واقعات میں مزید 56افراد ہلاک ہوئے، حسینہ واجد کے استعفے کا اعلان ہونے کے باوجود تشدد جاری رہا ، مظاہرین نے شیخ مجیب کے میوزیم پر بھی دھاوابول دیا ، بنگلہ دیش کے بانی کا مجسمہ توڑ دیا ، حکمران جماعت عوامی لیگ کا صدر دفتر بھی جلادیا ، ڈھاکا سمیت ملک بھر میں جشن ، ٹینکوں پر چڑھ کر رقص، شیخ حسینہ واجد فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے سے بھارت پہنچیں جس کے بعد وہ لندن روانہ ہوں گی جہاں سیاسی پناہ کی درخواست بھجوادی گئی ہے، فوج نےحسینہ واجد کو استعفے کیلئے 45منٹ کی ڈیڈ لائن دی تھی ، الوداعی تقریر بھی ریکارڈ نہ کرواسکیں، بنگلادیش کے صدر محمد شہاب الدین نے سابق وزیراعظم اور بی این پی کی سربراہ خالدہ ضیا ء سمیت ملک گیر احتجاج کے دوران گرفتار احتجاجی طلباء اور ہزاروں سیاسی کارکنوں کی رہائی کا حکم جاری کردیا ، یہ حکم صدارتی اجلاس میں دیا گیاجس میں آرمی چیف ، بحریہ کے سربراہ ، بی این پی اور جماعت اسلامی سمیت اپوزیشن جماعتوں کے رہنما بھی شامل تھے ، بنگلادیش کی فوج نے ملک میں نافذ کرفیو منگل کی صبح سے ختم کرنے کا اعلان کردیا، فوج کا کہنا ہے کہ ملک میں کرفیو منگل کی صبح ہٹا لیا جائے گا، منگل کی صبح سے اسکول کُھل جائیں گے اور کاروبار معمول پر آ جائے گا۔فوجی وردی اور ٹوپی میں ملبوس بنگلہ دیش کے آرمی چیف وقار الزماں نے ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب میں کہا کہ میں پوری ذمہ داری سنبھال رہا ہوِ اوروہ وزیر اعظم کے مستعفی ہونے اوردارالحکومت سے فرار ہونے کے بعد ایک عبوری حکومت تشکیل دیں گے۔اگرچہ ابھی یہ واضح نہیں کہ آیا وہ نگراں حکومت کی سربراہی کریں گےیا نہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ شیخ حسینہ واجدنے استعفیٰ دے دیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ملک کو بہت نقصان پہنچا ہے، معیشت متاثر ہوئی ہے، بہت سے لوگ مارے گئے ، یہ تشدد کو روکنے کا وقت ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ مجھے امید ہے کہ میری تقریر کے بعد حالات بہتر ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ وہ عبوری حکومت کی تشکیل کے لئے صدر سے بات کریں گے ، انہوں نے اہم اپوزیشن جماعتوں اپوزیشن جماعت بی این پی ، جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں کے رہنما شریک ہوئے ، سول سوسائٹی کے اراکین سے بات چیت کی ہے تاہم لیکن حسینہ واجدکی عوامی لیگ سے مذاکرات نہیں کئے۔انہوں نے کہا کہ اگر صورتحال بہتر ہو جاتی ہے تو ہنگامی صورتحال کی ضرورت نہیں ہے، آرمی چیف نے کہا کہ نئی حکومت مظاہروں میں ہلاک ہونے والوں کا مقدمہ چلائے گی۔انہوں نے کہاکہ اب طلباء کا کام پرامن رہنا اور ہماری مدد کرنا ہے۔ امریکا نے بنگلہ دیش میں عبوری حکومت کے قیام کا خیر مقدم کیا ہے ، امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نےمظاہرین سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے ، برطانیہ نے بنگلادیش کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے، یورپی یونین کاکہنا ہے کہ انسانی حقوق اور جمہوری اصولوں کے مکمل احترام کے ساتھ جمہوری طور پر منتخب حکومت کی طرف منظم اور پرامن منتقلی کو یقینی بنایا جائے، بھارت کے سابق سیکرٹری خارجہ ہرش وردھان شرنگلا نے دعویٰ کیا ہےکہ بنگلادیش میں شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے میں جماعت اسلامی بنگلادیش کا اہم کردار ہے۔بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی سربراہ بیگم خالدہ ضیا اور قائم مقام چیئرمین طارق رحمان نے ملک میں جاری صورتحال کے تناظر میں عوام کو پُرامن رہنے کا کہا ہے۔تفصیلات کے مطابق بنگلادیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ کا15 سالہ دور حکمرانی گزشتہ روز ختم ہو گیا،طلباء کے مظاہروں نے انہیں مستعفی اورملک سے فرار ہو نے پر مجبور کردیا،گزشتہ روزدارالحکومت میں تشدد کے دوران کم از کم 20 افراد ہلاک ہو ئے،جبکہ فوج نے ملک کا کنٹرول سنبھالتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ عبوری حکومت بنائے گی،سرکاری ملازمتوں میں کوٹے کے خلاف پرتشدد مظاہروں کے دوران پولیس اہلکاروں سمیت 3سو افراد ہلاک ہوئے،پیر کے روز سیکڑوں افرادحسینہ واجد کی سرکاری رہائش گاہ کے دروازے توڑ کراندر داخل ہوگئے، سڑک پر موجود ٹینک پر رقص کیا۔بنگلا دیش کی سیاست میں شیخ مجیب الرحمن کو بنگ بندھو کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مظاہرین اس قدر مشتعل ہو گئے کہ وہ شیخ مجیب الرحمان کے مجسمہ پر چڑھ گئے اور ہتھوڑوں سے وار کرکے اس کے ٹکڑے ٹکرے کردیے۔بنگلا دیش میں شیخ حسینہ کے استعفیٰ کے بعد مظاہرین ڈھاکا میں وزیر اعظم کی رہائش گاہ میں داخل ہو ئے ۔ تصاویر میں مظاہرین وزیر اعظم کی رہائش گاہ کا سامان اٹھاتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ شیخ حسینہ اپنا استعفیٰ دے کر بھارت روانہ ہو گئیں۔ رپورٹ کے مطابق شیخ حسینہ شام تقریباً 5.30 بجے غازی آباد کے ہنڈن ایئربیس پہنچیں۔ اس دوران امیگریشن ٹیم بھی ہنڈن ایئربیس پر موجود تھی۔ معلومات کے مطابق شیخ حسینہ نے برطانیہ میں سیاسی پناہ کی درخواست کی تھی۔ ذرائع کے مطابق وہ ہنڈن سے لندن کے لئے روانہ ہو گئیں۔ذرائع نے بتایا کہ وہ پہلے گاڑیوں کے جلوس میں روانہ ہوئیں، اور اپنی منزل بتائے بغیر ملک سے پرواز کرگئیں۔بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد ملک بھر میں جاری جشن کے دوران 17 سالہ طالبہ فاطمہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں یہاں اپنی آزادی کا جشن منا رہی ہوں۔ میرا ملک دوبارہ آزاد ہوچکا ہے۔‘’میں، میرے بھائیوں اور بہنوں نے اس کے لیے جدوجہد کی ہے۔ اور بالآخر ہمیں آزادی مل گئی ہے۔ ہم وہ کریں گے جو کرنا ہمیں پسند ہے۔ وہ نہیں جو دوسرے ہمیں کہیں گے۔‘خیال رہے کہ گزشتہ ماہ سول سروس میں ملازمتوں کے کوٹے کے خلاف ملک بھر میں طلبا کے مظاہرے شروع ہوئے تھے اور پھر حسینہ واجد کے استعفیٰ کے مطالبات میں اضافہ ہوا ۔بدامنی کا مہلک ترین دن اتوارتھا ،جس میں کم از کم 94 افراد ہلاک ہوئے، جن میں 14 پولیس افسران بھی شامل تھے۔اعداد و شمار کے مطابق، جولائی کے اوائل میں شروع ہونے والے مظاہروں کے بعد سےتشدد نے کم از کم 300 افراد کی جان لی ہے۔حسینہ واجد 2009 سے برسراقتدار تھیں، رواں برس انہوں نے مسلسل چوتھی بار انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔گزشتہ روزڈھاکہ میں بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ فوجیوں اور پولیس نے حسینہ واجد کے دفتر جانے والے راستوں کو خاردار تاروں سے بند کر دیا تھا، لیکن بڑی تعداد میں ہجوم نے رکاوٹیں توڑ کر سڑکوں پر جمع ہوگئے۔بزنس اسٹینڈرڈ اخبارکے اندازے کے مطابق، تقریباً4 لاکھ مظاہرین باہر نکل آئے تھے۔طلباء نے ہفتے کو ملک گیر سول نافرمانی کا اعلان کیا تھا،اتوار کو پولیس اور فوج نے مظاہرین کو روکنے کیلئے مداخلت نہیں کی۔سابق فوجیوں نے بھی مظاہرین کی حمایت کی۔یاد رہے کہ طلباء کے مظاہرے کوٹہ اسکیم کو دوبارہ متعارف کروانے پر شروع ہوئےتھے۔اگرچہ سپریم کورٹ نے کوٹے میں کمی تھی تاہم،مظاہروں کے دوران ہلاکتوں پرطلباء کی جانب سے وزیراعظم سے معافی اور پھر استعفے کا مطالبہ زور پکڑتا گیا۔