توشہ خانہ کا خصوصی آڈٹ، مسائل کا انبار سامنے آگیا

06 اگست ، 2024
انصار عباسی
اسلام آباد : آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے توشہ خانے کے خصوصی آڈٹ کی وجہ سے مسائل کا انبار کھڑا ہوگیا ہے کیونکہ توشہ خانہ کے معاملات سے جڑی کوئی چیز ٹھیک سے کام نہیں کر رہی۔ آڈٹ میں توشہ خانہ رولز 1973ء میں بے قاعدگی اور غیر مجاز تبدیلیوں سے لے کر چالان کے عوض حاصل کیے گئے تحائف کی رسیدیں جمع نہ کیے جانے، نمایاں مقامات پر رکھے گئے تحائف کی طبعی تصدیق نہ کرانے، اصل حالت اور اصل تعداد میں رکھے گئے تحائف کی تصدیق کیلئے سرٹیفکیٹ جاری نہ کرنے، ٹائم لائن کے مطابق توشہ خانہ کے سامان کی بے ضابطہ نیلامی، تحائف کی جانچ کیلئے نجی اپریزر کا بے قاعدہ اندراج اور اختیارات کی منظوری کے بغیر تحائف کو غیر قانونی اور غیر مجاز انداز سے ڈسپوز کرنے کے عمل تک سب کچھ غلط پایا گیا ہے۔ توشہ خانہ کے خصوصی آڈٹ کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ 1973 میں بنائے گئے توشہ خانہ رولز میں وفاقی کابینہ کی منظوری کے بغیر وقتاً فوقتاً تبدیلیاں کی گئیں جیسا کہ 1973 میں کیا گیا تھا۔ قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وزیراعظم کیلئے قواعد میں نرمی کی گئی۔ 2001، 2004، 2006، 2007، 2011، 2017، اور 2018 میں بنائے گئے نئے طریقہ کار کے ذریعے اصولوں کو شروع سے ہی تبدیل کر دیا گیا تھا۔ آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ توشہ خانہ کے قواعد میں ترامیم اور پالیسی تبدیل کرنا اور قواعد میں نرمی بے قاعدہ اور غیر مجاز تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس معاملے کی انکوائری کی جائے اور اس کے ذمہ داروں کا تعین کیا جائے۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کیبنٹ ڈویژن (توشہ خانہ) کی انتظامیہ نے 2002 سے 28 فروری 2023 تک بینک چالان کے ذریعے 226.987 ملین روپے وصول کنندگان سے تحائف کی اسسمنٹ ویلیو کے فیصدی حصے کے طور پر جمع کیے۔ توشہ خانہ کے خصوصی آڈٹ کے دوران دیکھا گیا کہ کابینہ ڈویژن نے بینک چالان کے اعداد و شمار کو وفاقی ٹریژری آفس سے ری کنسائل نہیں کیا۔ آڈٹ رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ معاملے کی انکوائری کی جائے، ہر چالان کی تصدیق کی جائے اور رسیدوں کو ری کنسائل نہ کیے جانے کے حوالے سے ذمہ دار افراد کا تعین کیا جائے۔ توشہ خانہ کے خصوصی آڈٹ کے دوران اس بات کا بھی مشاہدہ کیا گیا کہ سیکرٹری کابینہ کے علاوہ دیگر معاملات کو کسی اور کو اختیارات تفویض کیا جانا بے قاعدہ اور غیر مجاز تھا۔ نمونے کی جانچ کی بنیاد پر معلوم ہوا کہ 13.985 ملین روپے کے کیسز ڈپٹی سیکرٹری ایڈمنسٹریشن اور 28.520 ملین روپے جوائنٹ سیکرٹری ایڈمنسٹریشن نے نمٹائے۔ تحائف کی قیمت کے تعین (ایوالیوشن) اور تحائف فروخت کرنے میں بھی بے ضابطگیاں دیکھنے میں آئیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آڈٹ سفارش کرتا ہے کہ حقائق جاننے کیلئے انکوائری کرائی جائے اور اختیارات کے بے قاعدہ اور غیر مجاز استعمال میں ملوث افراد کا پتہ لگایا جائے۔