قومی اسمبلی ، الیکشن ایکٹ بل منظور، اپوزیشن کا شدید احتجاج، پارٹی سرٹیفکیٹ جمع نہ کرانے والا امیدوار آزاد تصور ہوگا، ترمیمی بل پی ٹی آئی کا قانون سازی کیخلاف سپریم کورٹ جانے کا اعلان

07 اگست ، 2024

اسلام آباد(جنگ نیوز) قومی اسمبلی نے اپوزیشن کے شدید احتجاج اور شور شرابے میں الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور کرلیا۔ بل کے مطابق پارٹی سرٹیفکیٹ جمع نہ کرانے والا امیدوار آزاد تصور ہوگا۔قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر ایاز صادق کی سربراہی میں ہوا جس میں چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور نے انتخابات ایکٹ ترمیم بل پرکمیٹی کی رپورٹ پیش کردی۔اس دوران الیکشن ایکٹ ترمیمی بل منظوری کے لیے قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا جب کہ الیکشن ایکٹ ترمیمی بل زیر غور لانے کی تحریک بھی پیش کی گئی جسے ایوان نے منظور کرلیا۔تحریک بلال اظہر کیانی نے پیش کی جس کی اپوزیشن نے شدید مخالفت کی، اپوزیشن ارکان نے ایوان میں احتجاج اور نعرے بازی کی، اسپیکر ڈائس کا گھیراؤ کیا اور ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں۔ اس دوران علی محمد خان نے ترمیمی بل پر ترمیم پیش کی جس کی وزیر قانون نے مخالفت کردی۔وزیر قانون اعظم نذیر نے کہا کہ یہ قانون سازی آئین کی روح کے عین مطابق ہے اور غیرآئینی نہیں۔ علی محمد خان نے کہا کہ یہ قانون سازی ہمارا راستہ روکنے کے لیے ہے۔ ان کے 41 ارکان نے حلف نامے دیے کہ ان کا تعلق سنی اتحاد کونسل سے ہے، آپ کے وکیل نےکہا مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کیلئے مانگ رہے ہیں، جس جماعت نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا مخصوص نشستیں نہیں دی جاسکتیں ،ہم کسی جرم میں ترمیم کرنے نہیں جارہے۔علی محمد خان نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی سیاسی جماعت تھی، ہے اور رہے گی ، الیکشن کمیشن سے پوچھا کہ کیا 39 ارکان کے لیے پی ٹی آئی حلال اور 41 کیلیے حرام ہے؟ ہم اس ترمیمی بل کو مسترد کرتے ہیں، قانون سازی ضرور کریں لیکن یہ ملک کے مفاد میں ہونی چاہیے، اس قانون سازی کے خلاف عدالت جائیں گے۔پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکن قومی اسمبلی علی محمد خان نے کہا کہ الیکشن ایکٹ ترمیمی بل غیر آئینی ہے، کس طرح قانون سازی کرکے سپریم کورٹ کی جانب سے دیے گئے ہمارے حق سے محروم کیا جاسکتا ہے۔علی محمد خان نے کہا کہ مخصوص نشستوں کا حق ہمیں سپریم کورٹ سے ملا ہے، سپریم کورٹ نے ہمارے حق میں فیصلہ دیا ہے آپ اسے تبدیل کرنا چاہتے ہیں، آپ کس طرح ہم سے ہمارا حق چھین سکتے ہیں، الیکشن ایکٹ ترمیمی بل سیاسی مقاصد کے لیے پیش کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کو ایک سیاسی جماعت تسلیم کیا ہمارا حق تسلیم کیا، میں نے معاملہ قائمہ کمیٹی کے سامنے اپنا موقف رکھا، انتخابی بلیٹ پیپرز پر بیٹ کا نشانہ تک ہٹادیا گیا مگر پھر بھی عوام نے حق میں ووٹ دیا۔پی ٹی آئی رکن قومی اسمبلی کا کہناتھا کہ کیا صرف 39 ارکان حلال اور باقی حرام ہیں، ہم اس بل کو مسترد کرتے ہیں، ہم اس پر شدید احتجاج کرتے ہیں، ہم اس قانون سازی کے خلاف سپریم کورٹ میں جائیں گے یہ وہاں سے بھی مسترد ہوگا، کیونکہ یہ بل قانون سازی نہیں بلکہ ایک سیاسی جماعت کی فسطائیت شامل ہے۔علی محمد خان نے کہا کہ اس قانون کے ذریعے پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ پر حملے کے لیے استعمال کیا گیا، قانون سازی بے شک کریں مگر قانون سازی پاکستان کے مفاد میں ہونی چاہئے، اس قانون سازی کے خلاف سپریم کورٹ جائیں گے۔چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے کہا کہ آئین اور قانون کے خلاف قانون سازی ہورہی ہے، یہ ساری کوشش صرف اس لیے ہے کہ جس طرح فارم 47 کو تبدیل کرکے اپنی حکومت بنالی ہے، اس طرح یہ اب کوشش کررے ہیں کہ خواتین اور اقلیتیوں کی مخصوص نشستیں ان کو مل جائیں۔انہوں نے کہا کہ ہماری 68 خواتین اور 11 اقلیتوں کی نشستیں ہیں جس کے لیے ہم نے مخصوص نشستوں سے متعلق الیکشن کمیشن کو 4 درخواستیں دیں، جس وقت کاغذات نامزدگی فائل کرلیے تو سازش کے تحت نشان لے لیا گیا، ہمیں ہرانے کی کوشش کی گئی لیکن دو تہائی اکثریت سے جیتے۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت ہے، تھی اور رہے گی، یہ پارلیمنٹ سپریم ضرور ہے لیکن تشریح کا اختیار سپریم کورٹ کو ہے، اس قانون سازی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے۔بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ اگر سیاسی جماعتوں کو جگہ نہیں دیں گے تو کوئی اور آئے گا، آپ کا انجام بھی حسینہ واجد جیسا ہوگا، کل ہمارا ایک رکن فوت ہوا لیکن وہ گھر نہیں جاسکا، وہ گھر جانا چاہتا تھا لیکن بربریت کی وجہ سے نہیں جاسکا۔بعد ازاں اسپیکر نے الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کی شق وار منظوری کا عمل شروع کیا اور ایوان نے اپوزیشن کے شدید احتجاج اور شور شرابے میں بل کو کثرت رائے سے منظور کرلیا جب کہ ایوان نے کثرت رائے سے اپوزیشن کی ترمیم مسترد کردی۔