انتخابی تر میمی بل 2024کی منظوری ؛کیا اثرات مرتب ہونگے ؟

07 اگست ، 2024

اسلام آ باد (رانا غلام قادر )پاکستان تحریک انصاف نے گزشتہ ماہ 12جولائی کو سپر یم کورٹ کے فیصلہ سے جو سیا سی اور پا ر لیمانی فتح حاصل کی تھی اسے پار لیمنٹ نے صرف 25دن کے بعد شکست میں تبدیل کردیا ،حکو متی اتحاد کی دو تہائی اکثر یت فی الحال بر قرار رہے گی ۔ مسلم لیگ ن بڑی اکثر یتی جماعت بر قرار رہے گی۔قومی اسمبلی نے منگل کے روز اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی اور احتجاج کے دوران الیکشن ایکٹ ترمیمی بل2024 کثرت رائے سے منظور کر لیا۔ بعد ازاں سینٹ نے بھی اس بل کی منظوری دیدی ۔ صدر مملکت کی منظوری کے بعد یہ قانون نافذ العمل ہو جا ئے گا۔ اس نئے قانون کے اثرات یہ ہوں گے کہ ا س سے سپریم کورٹ کا فیصلہ عملاً بے اثر ہو جا ئے گا کیونکہ اس کا طلاق موثر بہ ماضی الیکشنز ایکٹ 2017کے اجرا سے ہوگا۔ نئے قانون بل کے تحت انتخابی نشان کے حصول سے قبل پارٹی سرٹیفکیٹ جمع نہ کرانے والا امیدوار آزاد تصور ہوگا۔ مقررہ مدت میں مخصوص نشستوں کی فہرست جمع نہ کرانے کی صورت میں کوئی سیاسی جماعت مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں ہوگی۔ ترمیمی بل میں کہا گیا کسی بھی امیدوار کی جانب سے مقررہ مدت میں ایک مرتبہ کسی سیاسی جماعت سے وابستگی کا اظہار ناقابل تنسیخ ہو گا۔اس طرح پی ٹی آئی کو اب خصوص نشستیں نہیں ملیں گی اور نہ ہی وہ سنی اتحاد کونسل سے کی گئی وابستگی سے دستبردار ہوسکیں گے۔پی ٹی آئی کی قیادت نے نئے قانون کو سپر یم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ اس طرح دو بارہ معاملہ سپر یم کورٹ میں جا ئے گاتاہم فی الحال پی ٹی آئی کا مورال گرگیا ہے۔ حکومتی موقف یہ ہے کہ قانون سازی پار لیمنٹ کا ا ختیار ہے۔یہ بل آئین اور قانون کے عین مطا بق ہے۔یاد رہے کہ بارہ جولائی کو سپریم کورٹ نے گزشتہ ماہ بارہ جولائی کو اکثر یتی فیصلہ کے ذ ریعے مخصوص نشستوں سے متعلق الیکشن کمیشن نے جو مارچ میں فیصلہ دیا تھا اور پشاور ہائی کورٹ نے جو الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا اور قرار دیاتھاکہ پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کے حصول کی حق دار ہے اور اس فیصلے کے 15 روز میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے اپنی فہرست الیکشن کمیشن میں جمع کروائے۔ یہ بھی کہا گیاکہ جو امیدوار آزاد حیثیت میں اس الیکشن میں کامیاب ہوئے ہیں وہ اپنی جماعت کی وابستگی سے متعلق بیان حلفی الیکشن کمیشن میں جمع کروائیں اور پھر الیکشن کمیشن اس جماعت کے ساتھ رابطہ کرکے اس بات کی تصدیق کرے اور تصدیق ہونے کے سات روز کے اندر اندر اس امیدوار کو اس جماعت کا رکن تصور کیا جائے۔ فیصلے میں کہا گیاکہ آزادا امیدواروں کے سیاسی جماعت میں شامل ہونے کے بعد اس کی تعداد کو دیکھتے ہوئے متناسب نمائندگی کے اصول کو سامنے رکھتے ہوئے اس جماعت یعنی پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دی جائیں۔ پی ٹی آئی خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں لینے کی حقدار ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پنجاب، خیبر پختونخوا اور سندھ میں بھی مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دے دی جائیں۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ پی ٹی آئی بحیثیت جماعت مخصوص نشستیں حاصل کرنے کی قانونی و آئینی حق دار ہے، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے منتخب ارکان پی ٹی آئی کا حلف نامہ دیں، جن امیدواروں نے سرٹیفکیٹ دیا کہ وہ پی ٹی آئی سے ہیں وہ اس جماعت کے ہی اراکین تصور کیے جائیں گے۔ فیصلہ میں کہا گیا تھا کہ سنی اتحاد کونسل آئین کے مطابق مخصوص نشستیں نہیں لے سکتی جبکہ پی ٹی آئی بطور سیاسی جماعت قانون اور آئین پر پورا اترتی ہے۔ انتخابی نشان ختم ہونے سے کسی جماعت کا الیکشن میں حصہ لینے کا حق ختم نہیں ہوتا۔