حکومت کی دو تہائی اکثریت الیکشن کمیشن کے نوٹیفکیشن سے مشروط، رانا ثناء

13 اگست ، 2024
انصار عباسی
اسلام آباد :…حکومت کا دعویٰ ہے کہ انتخابی قوانین میں حالیہ ترامیم سے حکمران اتحاد کیلئے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت کے حصول کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ نے دی نیوز کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ انتخابی قوانین میں حالیہ ترامیم کے بعد اتحادی جماعتیں پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کیلئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد یہ باضابطہ طور پر کیا جائے گا۔ تاہم، رانا ثناء اللہ نے اصرار کیا کہ الیکشن کمیشن قانون اور آئین کے مطابق کام کرنے کا پابند ہے۔ سنی اتحاد کونسل کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے حکمران اتحادی جماعتوں کے اُن ارکان قومی و صوبائی اسمبلیز کی رکنیت معطل کر دی تھی جو الیکشن کمیشن کے اُس سابقہ فیصلے کی وجہ سے خواتین اور اقلیتوں کی خصوصی نشستوں پر منتخب ہوئے تھے کہ سنی اتحاد کونسل خصوصی نشستوں کے کوٹے میں کوئی حصہ حاصل کرنے کی اہل نہیں تھی۔ حالیہ قانون سازی کے پس منظر میں، حکومتی جماعتیں اب الیکشن کمیشن سے امید لگائے بیٹھی ہیں کہ وہ اُن ارکان قومی و صوبائی اسمبلیز کی رکنیت بحال کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کرے گا جن کی کامیابی کا نوٹیفکیشن سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد معطل کر دیا گیا تھا۔ رانا ثناء اللہ نے دلیل دی کہ سپریم کورٹ کے کسی بھی فیصلے کیخلاف پارلیمنٹ قانون سازی کر سکتی ہے اور قانون یا آئین میں ایسا کچھ نہیں جو مقننہ کو ایسا کرنے سے روکے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ آئین یا شریعت کیخلاف کوئی قانون سازی نہیں کر سکتی۔ وزیر اعظم کے مشیر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کا مطلب آئین کے آرٹیکل 51؍ اور 106؍ سمیت کچھ آرٹیکلز کو معطل کرنا ہے۔ ایسے حکم پر عمل نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کی حالیہ قانون سازی سے آئین کے تحت قانونی پوزیشن واضح ہو جاتی ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ الیکشن کمیشن اب ترمیم شدہ قانون اور آئین کے مطابق کام کرنے کا پابند ہے۔ اگر حکمران اتحاد کی سیاسی جماعتیں پارلیمنٹ میں دوبارہ دو تہائی اکثریت حاصل کر لیتی ہیں تو وہ آئین میں کوئی بھی ترمیم کر سکیں گی۔ میڈیا میں ایسی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں کہ حکومت موجودہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع کا ارادہ رکھتی ہے۔ تاہم، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے میڈیا کو بتایا تھا کہ تمام سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کی تجویز زیر غور ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ توسیع لینے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ حکومتی وزراء اس معاملے پر مبہم باتیں کر رہے ہیں لیکن اگر سرکاری ملازمین اور ججوں کے معاملے میں ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ کیا گیا تو اس کا مطلب کسی خاص شخص کو توسیع دینا نہیں ہو گا۔ سرکاری ملازمین کے معاملے میں، ریٹائرمنٹ کی عمر میں سادہ قانون سازی کے ذریعے یا پھر ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے پالیسی تبدیل کرکے اضافہ کیا جا سکتا ہے لیکن سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کیلئے آئین میں ترمیم کرنا ہوگی اور ایسا پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت کی حمایت سے ہی ممکن ہوگا۔