جنرل فیض فوج کی تحویل میں، بعد از ریٹائرمنٹ سیاسی روابط کا الزام

13 اگست ، 2024
انصار عباسی
اسلام آباد :…سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید ریٹائرمنٹ کے بعد فوج کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی روابط میں ملوث پائے گئے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں خبردار کیا گیا تھا کہ وہ ایسا نہ کریں لیکن جنرل فیض نے اس انتباہ پر دھیان نہ دیا، اور یہ بات ان کیخلاف کارروائی کا سبب بنی۔ پیر کو جاری ہونے والی آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ اسلام آباد کی ایک ہاؤسنگ سوسائٹی ٹاپ سٹی کے مالک کے الزامات سے متعلق انکوائری سے جڑا تھا۔ اس حوالے سے پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ٹاپ سٹی کے کیس میں کی گئی شکایات کی درستگی کا پتہ لگانے کیلئے پاک فوج نے لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید (ر) کیخلاف سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے ایک مفصل کورٹ آف انکوائری کی تھی۔ اس کے نتیجے میں جنرل (ر) فیض حمید کیخلاف پاکستان آرمی ایکٹ کی دفعات کے تحت مناسب تادیبی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔ پریس ریلیز کے دوسرے حصے میں تفصیلات بتائے بغیر کہا گیا ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کے متعدد واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل شروع کر دیا گیا ہے اور جنرل (ر) فیض حمید کو فوج نے تحویل میں لے لیا ہے۔ پریس ریلیز میں متعلقہ تفصیلات نہ ہونے کی وجہ سے جنرل (ر) فیض کی جانب سے ’’ خلاف ورزی کے متعدد واقعات‘‘ کے متعلق قیاس آرائیاں پیدا ہوئیں۔ایک ذریعے سے جب یہ پوچھا گیا کہ آیا ان واقعات میں جنرل فیض کا 9؍ مئی کے حملوں یا اس کی منصوبہ بندی کے حوالے سے کوئی بات شامل ہے، تو انہوں نے جواب دیا کہ اب تک ایسے کوئی شواہد موجود نہیں ہیں لیکن ان کی گرفتاری کے دوران تفتیش میں اگر کوئی چیز نکل آئے تو اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ پیر کے روز یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ متعلقہ حلقوں کو 2023ء میں جنرل فیض کے بحیثیت ڈی جی آئی ایس آئی کچھ سیاستدانوں اور صحافیوں کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کے ثبوت ملے ہیں۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی کیخلاف ایسی کوئی بات نہیں ہے۔