’’ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کی گرفتاری، پاکستان میڈیا کی بریکنگ نیوز‘‘

13 اگست ، 2024

اسلام آباد(فاروق اقدس/ تجزیاتی جائزہ) لیفٹیننٹ جنرل(ر)فیض حمید کی گرفتاری اور ان کے خلاف عسکری قواعد و ضوابط کے مطابق باقاعدہ تحقیقات شروع کئے جانے کی خبریں صرف پاکستان کے میڈیا میں ہی’’بریکنگ نیوز‘‘کے طور پر سامنے نہیں آئیں بلکہ عالمی نشریاتی اداروں نے بھی اس خبر کو اہم خبر کے طور پر نمایاں کیا ہے۔ مختلف غیر ملکی نشریاتی اداروں کی اردو انگریزی اور دیگر زبانوں کی ویب سائٹ پر بھی اس خبر کی تفصیلات پاکستان کی سیاسی صورتحال کے تناظر میں تجزیوں اور تبصروں کے ساتھ پیش کی گئیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔جن میں پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے اس اقدام کو غیر معمولی اور دلیرانہ قرار دیتے ہوئے اسے پاک فوج کی ساکھ اور وقار کے تحفظ کا اہم آغاز بھی قرار دیا جا رہا ہے اس توقع کا بھی خیال ظاہر کیا ہے کہ پاکستانی فوج کے سپہ سالار کے اس فیصلے سے نہ صرف فوج میں داخلی سطح پر اصلاح احوال کیلئے زیادہ ذمہ داری اور محتاط رویوں میں مزید اضافہ ہوگا بلکہ عوامی سطح پر بھی ان کے اس اقدام کی روشنی میں ’’سویلین سطح‘‘پر بھی ان کی حمایت، مقبولیت اور ان پر اعتماد کی فضا پہلے سے زیادہ ان کے حق میں ہموار ہوگی۔ ان تجزیوں اور آراء میں اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ بالخصوص سوشل میڈیا پر جو حلقے اور چند افراد اپنے ہی ملک اور اپنی ہی فوج کے خلاف پروپیگنڈے میں مسلسل مصروف ہیں ان کے ملک کے فوجی سپہ سالار کی قیادت میں ایک ریٹائرڈ فوجی جرنیل کے خلاف یہ کارروائی ان کیلئے انتہائی مایوس کن اور ان کے پروپیگنڈے کی نفی اور اسے غیر موثر ثابت کرے گی۔اس فیصلے کے حوالے سے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو خراج تحسین بھی پیش کیا جارہا ہے۔ تاہم ان خبروں تجزیوں اور تبصروں میں یہ اشارے بھی سامنے آ رہے ہیں کہ ریٹائرڈ جنرل فیض حمید کے بارے میں تحقیقات اور کارروائی کرپشن کے الزامات کے حوالے سے ان کے خلاف کورٹ مارشل کے لئے شروع کی جارہی ہے جبکہ ملکی سیاست میں مداخلت کیلئے بھی ان کا کردار خاصا اہم تھا اور اپنے منصب کی طاقت سے کو انہوں نے بالخصوص پاکستان تحریک انصاف کی انتہائی موثر حمایت کی اور تاثر یہ بھی ہے کہ اس حمایت کے صلے میں پی ٹی آئی کے قیدی بانی انہیں آرمی چیف بنانے کی خواہش رکھتے تھے اور یہ بھی کہ جب انہیں آئی ایس آئی کی ذمہ داریوں سے ہٹائے جانے کی باتیں ہو رہی تھیں تو عمران خان نے اس کی شدید مخالفت کی تھی اور یہ عمران خان سے ان کی قربت کا ہی نتیجہ تھا کہ انہوں نے آرمی چیف بننے کیلئے لابنگ شروع کر دی تھی تاہم ان تبصروں میں اس آرا کے برعکس تجزیئے بھی سامنے آ رہے ہیں جن میں فیض حمید کے دہرے کردار اور متنازعہ رویوں کی نشاندہی کی جارہی ہے۔ ISPRکی جانب سے ترجمان کے مطابق ریٹائرمنٹ کے بعد فیض حمید کے خلاف آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کی شکایات سامنے آنے پر انضباطی کارروائی شروع کر دی گئی ہے جبکہ ان کےخلاف اسلام آباد کی ایک ہائوسنگ سوسائٹی (ٹاپ سٹی ہائوسنگ سوسائٹی)پر قبضے کیلئے اثرورسوخ استعمال کرنے کا الزام بھی ہے یاد رہے کہ مذکورہ ہائوسنگ سوسائٹی کے مالک کنور معیز نے نومبر 2023میں سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ مئی 2017میں جنرل فیض حمید کی ایما پرٹاپ سٹی کے دفتر میں اور ان کی رہائش گاہ پر ISIکے اہلکاروں نے ریڈ کیا تھا اور اس دوران وہ ان کی رہائش گاہ قیمتی اشیاءجن میں سونا،ہیرے اور خطیر نقدی شامل تھی اپنے ساتھ لے گئے تھے جس پر سپریم کورٹ نے اس معاملے کو سنجیدہ قرار دیتے ہوئے درخواست گزار کو وزارت دفاع سے رجوع کرنے کی ہدایت کی تھی۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے 17مئی 2017کو جب یہ واقعہ پیش آیا تو اگلے دن ہی یہ میڈیا میں اس حوالے سے مبہم سی خبریں منظر عام پر آئیں اور ایک ہفتے بعد 19مئی کو کنور معیز اور ان کے ساتھیوں کی گرفتاری کی خبریں قدرے تفصیل سے سامنے آئیؒں جس کے بعد کنور معیز کے مطابق فیض حمید کے بھائی سردار نجف حمید نے ان کی ملاقات فیض حمید سے کرائی ’’مصالحت‘‘کے نتیجے میں ریڈ کے دوران قبضے میں لی گئی تاہم 400تولے سونااور کیش واپس نہیں کیا گیا جس کے بعد یہ معاملہ پس منظر میں چلا گیا۔ ان الزامات کے حوالے سے جنرل(ر)فیض حمید کی جانب سے کبھی واضح لفظوں میں قطعیت کے ساتھ تو تردید حتیٰ کے ردعمل بھی سامنے نہیں آیا تاہم ان کے برادر حقیقی نجف حمید اور فیض حمید کے قریبی ذرائع ان الزامات کی تردید بھی ضرور کرتے رہے لیکن محض رسمی لفظوں اور ’’تاکہ سند رہے کے انداز میں ‘‘خیال رہے کہ متعدد اہم عسکری شخصیات کے حوالے سے ہائوسنگ سوسائٹیز اور زمینوں کی خریدوفروخت کے حوالے سے ان پر الزامات اور ان کے فرنٹ مینوں کے کردار کا سلسلہ نیا نہیں اسی حوالے جنرل(ر)فیض حمید کے سگے بھائی نجف حمید جنہیں ان امور میں ان کا فرنٹ مین قرار دیا جاتا ہے کا کردار انتہائی اہم رہا۔ نجف حمید جو چکوال میں پٹواری کی حیثیت سے سرکاری ملازم بھرتی ہوئے تھے۔ اپنے بھائی کے اثرورسوخ سے ترقیوں اور کامیابیوں کی منازل تیزی سے طے کرتے رہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب انہیں نائب تحصیلدار بنانے کا فیصلہ کیا گیا تو اس بیش قیمت اور منفعت بخش منصب کے لئے 19ایسے امیدواروں سے جو میرٹ پر اس منصب کیلئے قطار میں تھے پیشگی طور پر ان سے تحریری طور پر یہ آمادگی حاصل کی گئی کہ وہ نائب تحصیلدار کے عہدے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے اس لئے کسی دوسرے کی پروموشن پر انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔یاد رہے کہ نائب تحصیلدار کی کرسی زمینوں کے انتقال سمیت ہر قسم کے متعلقہ امور میں اہم اور حتمی فیصلہ کرتی ہے اور ہر پٹواری کی نوکری کا خواب یہ کرسی ہی ہوتا ہے۔ نجف حمید نے ریونیو ڈیپارٹمنٹ میں نوکری کا آغاز لگ بھگ 35سال قبل پٹواری کی حیثیت سے کیا تھا جس کے بعد وہ چکوال کے پہلے گرداور اور پھر نائب تحصیلدار رہے۔ جس کےبعد ان کی سیاسی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے علاقے میں دھاک بٹھانے کیلئے سڑکوں، پارکوں اور حکومتی منصوبوں کا افتتاح خود کرتے تھے اور ارکان اسمبلی ان کے پہلے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے تھے ان کیخلاف جب انٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے بدعنوانی کا ایک مقدمہ درج ہوا تو انہیں گرفتار کر لیا گیا لیکن محض چند گھنٹوں میں ان کی ضمانت منظور کر کے انہیں رہا کرنا پڑا۔