حکومت کا مختلف تجاویز کے ذریعے بجلی نرخ معقول بنانے کا منصوبہ

13 اگست ، 2024

اسلام آباد (مہتاب حیدر) یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ پاور سیکٹر کو مالیاتی استحکام کے لیے ایک بڑا خطرہ لاحق ہے، حکومت مختلف تجاویز کے ذریعے بجلی کے نرخوں کو معقول بنانے کے منصوبے بنا رہی ہے جس میں وفاقی اور صوبائی سطحوں پر ترقیاتی بجٹ کی مختص رقم میں کمی بھی شامل ہے۔ حکومت سرکاری اور نجی شعبوں سے تعلق رکھنے والے گھریلو آزاد پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کو بند کرنے پر بھی کام کر رہی ہے۔ تاہم آئی ایم ایف نے ابھی تک پاور ریشنلائزیشن پلان کی توثیق نہیں کی ہے۔ حکومتی صفوں کے اندر بھی کچھ مزاحمت ہے کیونکہ بعض اہم حلقوں کا خیال ہے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ منصوبہ قابل عمل نہ ہو اور یہ نقصان میں جانے والے پاور سیکٹر کو درپیش ساختی مسائل کا مستقل حل فراہم کرنے میں ناکام رہے گا۔ اعلیٰ سرکاری ذرائع نے دی نیوز کو بتایا کہ نان سی پیک آئی پی پیز کو مختلف آلات کے ذریعے صلاحیت چارجز کی ادائیگی کا ہدف بنایا جائے گا۔ حکومت وفاقی سطح پر پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) اور صوبائی حکومتوں کے سالانہ ترقیاتی منصوبوں (اے ڈی پیز) میں کمی کرکے ایک خاطر خواہ مالیاتی جگہ حاصل کرنا چاہتی ہے تاکہ مطلوبہ مالیاتی جگہ پیدا کی جاسکے۔ اس کے بعد اتھارٹیز اور ایس او ایز کے فنڈز بھی ڈیڑھ سے 2 ٹریلین روپے کے درمیان مالیاتی جگہ بنانے کے لیے استعمال کیے جائیں گے۔ آئی ایم ایف ایسی تمام تجاویز کی مخالفت اس دلیل کے ساتھ کر رہا ہے کہ جنریشن، ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن اور بلوں کی وصولی کو طے کیے بغیر پاور سیکٹر کو چالوں اور ونڈو ڈریسنگ کے ذریعے ٹھیک نہیں کیا جا سکتا۔ وزارت خزانہ نے مالیاتی خطرات سے متعلق اپنی رپورٹ میں اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ متعدد اقتصادی عوامل نے صلاحیت کی ادائیگی میں اضافہ میں کردار ادا کیا ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران پاکستان کی برائے نام جی ڈی پی نمایاں طور پر بڑھی ہے جو مالی سال 2018 میں 39,189.81 ارب پاکستانی روپے سے بڑھ کر مالی سال 2024 میں 106,045 ارب پاکستانی روپے ہو گئی۔ تاہم صلاحیت کے چارجز میں اضافہ برائے نام جی ڈی پی کی ترقی سے آگے نکل گیا ہے، جس کی وجہ سے ممکنہ مالیاتی دباؤ ہے۔ امریکی ڈالر کے مقابلے پاکستانی روپے کی قدر میں کمی مالی سال 2018 میں اوسطاً 109.84 (روپے/ڈالر) سے مالی سال 2024 میں 283 تک، نے درآمدی ایندھن اور آلات کی قیمت میں اضافہ کرکے صورتحال کو مزید خراب کردیا ہے۔ مزید برآں اعلیٰ اور اتار چڑھاؤ والی شرح سود، مثلاً مالی سال 2023 میں کراچی انٹربینک کی پیشکش کردہ شرح 23.27 فیصد تک پہنچ گئی، نے قرض لینے کی لاگت میں اضافہ کیا، جس سے مالیاتی بوجھ میں اضافہ ہوا۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران، کم اقتصادی ترقی کے نتیجے میں بجلی کی طلب میں بھی کمی آئی، جس کے نتیجے میں صلاحیت کے چارجز میں اضافہ ہوا۔ ایندھن کی قیمتیں ٹیرف کے ڈھانچے اور پاکستان کی مالی استحکام میں پیچیدگی کی ایک اور تہہ کا اضافہ کرتی ہیں۔