دوبارہ گنتی کیس،ن لیگ کے4ارکان اسمبلی کی کامیابی کا فیصلہ بحال

13 اگست ، 2024

اسلام آباد، شاہ کوٹ (رانا مسعود حسین، نامہ نگار) سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے4 اراکین اسمبلی کی دوبارہ گنتی کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے انہیں بحال کر دیا، عدالتی فیصلے سے بحال ہونے والوں میں این اے79، 81 اور154 سےاظہر قیوم ناہرا، عبد الرحمٰن کانجو، ذوالفقار احمد، پی پی 133سے رانا محمد ارشد شامل ہیں، عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ جب ہائیکورٹ میں کیس گیا اس وقت یہ ترمیم موجود تھی مگر ہائیکورٹ نے سیکشن 95 کی ذیلی شق 5 کو مدنظر ہی نہیں رکھا،چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس میں کہا الیکشن کمیشن احترام کا حقدار، کچھ ججزتضحیک آمیز ریمارکس دیتے ہیں، جسٹس عقیل عباسی نے اختلافی فیصلہ دیا انہوں نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے مین آئینی اور قانون سقم نہیں کہ مداخلت کی جائے، عدالتی فیصلے سےلیگی حلقوں میں خوشی لہر دوڑ گئی،مٹھائیاں تقسیم کیں اور کارکنوں اور ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالے۔ تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسی ٰکی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے پیر کے روز 12جولائی 2024کو محفوظ کیاگیا 47صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کرتے ہوئے دو ایک ججوں کی اکثریت سے چاروں امیدواروں کی اپیلیں منظور کرلی ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس نعیم اختر افغان نے چاروں اپیل گزاروں کے حق میں فیصلہ جاری کیا ہے جبکہ جسٹس عقیل احمد عباسی نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے قرار دیاہے کہ ہائی کورٹ نے دائرہ اختیار کا درست استعمال کرکے الیکشن کمیشن کے فیصلے کیخلاف دائر آئینی درخواستیں منظور کی ہیں۔اختلافی فیصلے کے مطابق ہائیکورٹ نے دوبارہ گنتی پر نہیںبلکہ الیکشن کمیشن کے اپنے اختیار ات سے تجاوز سے متعلق فیصلہ دیا ہے ۔ یاد رہے کہ عام انتخابات 2024میں الیکشن کمیشن نے این اے 154 لودھراں (ون)سے آزاد امیدوار رانا محمدفراز نون کو مسلم لیگ (ن) کے امیدوار عبدالرحمان کانجو، این اے 81گوجرانوالہ (فائیو)سے آزاد امیدوار چوہدری بلال اعجاز این کو مسلم لیگ (ن) کے امیدوارا ظہر قیوم نارا، این اے 79 گوجرانوالہ (تھری) سے آزاد امیدوار احسان اللہ ورک کو مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ذوالفقار علی بھنڈر جبکہ پی پی 133ننکانہ صاحب(ٹو) سے آزاد امیدوار میاں محمد عاطف کو مسلم لیگ (ن) کے امیدوار رانامحمد ارشد کے مقابلہ میں کامیاب قرار دیا تھا۔ تاہم دوسرے نمبر پر آنے والے چاروں مذکورہ بالاامیدواروں نے دھاندلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے دوبارہ گنتی کیلئے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا تھا،دوبارہ گنتی کے بعد الیکشن کمیشن نے ان چاروں امیدواروں کو کامیاب قراردے دیا تھا، الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو چاروں آزاد امیدواروںنے ایک آئینی درخواست کے ذریعے لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا، جہاں عدالت نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم قرار دیکر انکی کامیابی کو بحال کردیا تھا،اس فیصلے کیخلاف مسلم لیگ (ن) کے چاروں مذکورہ بالا امیدواروں نے سپریم کورٹ میں یہ اپیلیں دائر کی تھیں، دونوں فاضل ججوں نے اپنے اکثریتی فیصلے میں مذکورہ بالا حلقوںمیں ووٹوں کی دوبارہ گنتی سے متعلق الیکشن کمیشن کا فیصلہ بحال کرنے کی قانونی وجوہات جاری کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ زیر غور معاملہ میں سپریم کورٹ کی کئی نظائر موجود ہیں لیکن ہائی کورٹ کے ججوں نے قانون دیکھے بغیر اور سپریم کورٹ کے فیصلوں پر غور کیے بغیر ہی یہ آئینی درخواستیں منظور کرلی ہیں۔ اکثریتی فیصلے میں قراردیا گیا ہے کہ جن نظائر کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سپریم کورٹ یہ قرار دے چکی ہے کہ انتخابی معاملات میں ہائی کورٹ آئین کے آرٹیکل 199کے تحت رٹ پٹیشن کے دائرہ اختیار کو صرف اسی وقت ہی استعمال کرسکتی ہے جب متاثرہ فریق کی داد رسی کسی اور فورم پر ممکن نہ ہو یا جو حکمنامہ ہائی کورٹ کے سامنے چیلنج کیا گیا ہو؟ وہ غیر قانونی،بدنیتی پر مبنی اوراختیارات سے تجاوز کرکے جاری کیا گیا ہو اورجو قانون کی نظر میںفیصلہ ہی نہ ہو،سپریم کورٹ کی مذکورہ نظائر میں یہ طے ہوچکا ہے کہ اگر مد مقابل دوبارہ گنتی کرنے کے الیکشن کمیشن کے انتظامی اقدام کو ہائی کورٹ میں چیلنج کریگاتو ہائی کورٹ اس معاملے کو نہیں دیکھ سکتی ہے کیونکہ اس معاملے میں دادرسی کے دیگر مناسب فورم موجودہیں، عدالت نے قرار دیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 199کے دائرہ اختیار کے استعمال کے لیے دو لوازمات ضروری ہیں، (اول ) متاثرہ شخص کا ہونا اور (دوئم) دادرسی کا مناسب فورم نہ ہونا، اکثریتی فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کو دوبارہ گنتی کرانے کا فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہے اور دوبارہ گنتی کا فیصلہ الیکشن کمیشن نے ہی کرنا ہوتا ہے،عدلت نے قرار دیا ہے کہ آئین نے قانون کے مطابق انتخابات کے انعقاد کی ذمہ داری الیکشن کمیشن کو دی ہے نہ کہ ہائی کورٹ کو؟یہ نہیں کہا جاسکتاہے کہ جب تصور کردہ حالات الیکشن ایکٹ کے سیکشن 95(5)کے مطابق تھے تو پھر ووٹوں کی دوبارہ گنتی بدنیتی پر مبنی تھی،اکثریتی فیصلے میں اپیلیں منظور کرنے کی وجوہات میں یہ بھی قرار دیا گیا ہے کہ اگر مسول الیان ہائی کورٹ کی بجائے الیکشن ٹریبونل سے رجوع کرتے اور اگر کوئی فریق الیکشن ٹریبونل کے فیصلے سے متاثر ہوتا تو الیکشن ایکٹ کی دفعہ 155کے مظابق سپریم کورٹ آجاتا،اکثریتی فیصلے میں قراردیاگیا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ کے فاضل ججوں اور سنگل جج نے اپنے فیصلے میں ذوالفقار علی بھٹی کیس کے فیصلے کا حوالہ تو دیا ہے لیکن فیصلے کے حقائق کو نہیں دیکھا ہے،فیصلے کے حقائق یہ ہیں کہ سپریم کورٹ نے اس بنیاد پر ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا تھا کہ ہائی کورٹ نے اختیار سماعت نہ ہونے پر آئینی درخواستیں خارج کی تھیں، فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ سنگل جج نے اپنے فیصلے میں غلام مصطفی جتوئی اور نیئر حسین بخاری کے مقدمات کے فیصلوں کے حوالے دیے ہیں حالانکہ دونوں مقدمات میں یہ قرار دیا گیاہے کہ ہائی کورٹ کو آئینی اختیار ات استعمال کرتے ہوئے انتخابی تنازعات کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے، مذکورہ فیصلوں میں یہ بھی قرار دیا گیاہے کہ ہائی کورٹ آئین کے آرٹیکل 225کے تناظر میں انتخابی معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتی ہے، لیکن اس واضح اور طے شدہ اصول قانون کو بھی نظر انداز کرکے ہائی کورٹ نے دوبارہ گنتی کے معاملہ میں اپنا آئینی اختیار استعمال کرکے یہ آئینی درخواستیں منظور کرلی ہیں اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم کردیا ہے، عدالت نے قرار دیا ہے کہ یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہائی کورٹ کا ہر جج سپریم کورٹ کے فیصلوں کا پابند ہے، سپریم کورٹ جن قانونی سوالات کو طے کرکے اصول قانون وضع کرلے تو پھر آئین کے آرٹیکل 189کے تحت اسکی پابندی سب پر لازمی ہے لیکن زیرغور مقدمات میں یا تو سپریم کورٹ کے فیصلوں کی غلط تشریح کی گئی ہے یا پھر فیصلوں کو ملحوظ خاطر ہی نہیں رکھا گیا ہے، اکثریتی فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ ہم نے ان زیر غور مقدمات کو مختلف زاویوں اور حوالوں سے جانچا اور ہر پہلو سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ہائی کورٹ کے چاروں مذکورہ بالا فیصلے بر قرار نہیں رکھے جاسکتے ہیں، متذکرہ وجوہات کی بنیاد پر دائر کی گئی درخواستوں کو اپیلوں میں تبدیل کرکے، انہیں منظور کیا جاتا ہے اور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قراردیا جاتا ہے لیکن کوئی جرمانہ عائد نہیں کیا جارہا ہے۔ عدالتی فیصلے سےمسلم لیگی حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔رانا ارشد کے ڈیرہ پر مٹھائیاں تقسیم کی گئیں اور کارکنوں نے ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالے ۔