اسلام آباد( فاروق اقدس / جائزہ رپورٹ ) سیاسی حکومتوں میں جس طرز پر کسی معاملے کی تفتیش اور تحقیقات کیلئے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی قائم کی جاتی ہے اسی طرح فوج میں کورٹ آف انکوائری بھی ایک تفتیشی اور تحقیقاتی عمل ہے لیکن سول حکومتی اداروں میں سیاسی حکومتوں کی مجبوریوں اور اہم شخصیات کے دبائو بکے اعث ایسی انکوائریاں یا تو قطعی طور پر بے نتیجہ ثابت ہوتی ہیں یا پھر میڈیا سمیت عوامی حلقوں کے ردعمل اور خدشات کے پیش نظر ہلکی پھلکی رسمی کارروائی کی نذر ہوجاتی ہیں لیکن افواج پاکستان میں کورٹ آف انکوائری ایک انتہائی سنجیدہ عمل ہے۔ اس انکوائری میں جنرل(ر) فیض حمید کو خود پر لگے ہوئے الزامات کی صفائی میں شواہد پیش کرنے ہونگے جس کیلئے انہیں وکلاء کی خدمات حاصل کرنے کی اجازت ہوگی کیونکہ ان پر الزامات کی چارج شیٹ فریم کی جاچکی ہے۔ اس حوالے سے کرنل رینک کی ایک ریٹائرڈ شخصیت کی جانب سے فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق کورٹ آف انکوائری کوئی ایکشن لینے کی مجاز نہیں ہے البتہ اس کی سفارشات کی روشنی میں کورٹ مارشل کی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔کورٹ مارشل کی کارروائی کے متعلق ان کا کہنا ہے کہ ایک حاضر سروس لیفٹیننٹ جنرل کی سربراہی میں ایک عدالت قائم کی جاتی ہے جس میں دو ممبروں کے علاوہ جج ایڈووکیٹ جنرل برانچ کا نمائندہ بھی شامل ہوتا ہے۔انھوں نے بتایا کہ اس عدالت کے سربراہ کو پریذیڈنٹ کہا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کسی بھی شخص کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی کی صورت میں اس فوجی افسر کی گرفتاری کے 24 گھنٹوں کے اندراندر چارج شیٹ فراہم کی جاتی ہے اور پھر اس کے بعد ملزم پر الزامات کی کاپی بھی فراہم کردی جاتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جب کورٹ مارشل کی کارروائی شروع ہو گی تو اس میں نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے سربراہ کو پراسیکوشن کے گواہ کے طور پر پیش کیے جانے کا امکان ہے۔اس کے علاوہ کورٹ آف انکوائری میں ’جو شواہد اکٹھے کیے گئے ہیں ان کی روشنی میں بھی مزید گواہوں کو پیش کیا جا سکتا ہے۔‘انھوں نے کہا کہ کورٹ مارشل کی کارروائی کے دوران ملزم کو ’اپنی مرضی کا وکیل کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے اور وہ اپنی صفائی میں گواہان بھی پیش کرنا چاہے تو انھیں ایسا کرنے کا حق حاصل ہے۔