قرض نادہندگان بے نقاب

اداریہ
18 اگست ، 2024

پاکستان کی معاشی ابتری کا ایک بنیادی سبب عشروں سے جاری بے پناہ اور غیر ضروری سرکاری اخراجات ہیں۔ ہم سے کہیں زیادہ خوشحال ملکوں میں وزارتی کابینہ کا حجم نہایت مختصر ہوتا ہے جبکہ تمام تر مالی مشکلات کے باوجود ہمارے ہاں وزیروں کی فوج ظفر موج میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا ہے‘ کسی حقیقی ضرورت کے بجائے حکمراں جماعتیں بالعموم اس طرح اپنے منظور نظر لوگوں کو قومی خزانے سے نوازنے کا بندوبست کرتی ہیں۔ تاہم ملک کی مالیاتی صورت حال اب اس نوبت تک جاپہنچی ہے کہ سرکاری اخراجات میں ہر ممکن کمی اور عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی رقوم کو مقتدر طبقوں کے اللوں تللوں کی نذر ہونے سے بچانا لازمی ہوگیا ہے۔اس حوالے سے گزشتہ روز ایک اہم پیش رفت حکومتی اخراجات میں کمی سے متعلق رائٹ سائزنگ کمیٹی کی تجاویز ہیں جن میں ڈیڑھ لاکھ اسامیاں ختم کرنے ،پانچ وزارتوں میں بارہ ادارے ضم کرنے اور 28 اداروں کو مکمل بند کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔وزیر اعظم کے زیرصدارت اجلاس میںوفاقی وزیر خزانہ کی سربراہی میں بنائی گئی کمیٹی کی تجاویز میں صفائی وغیرہ جیسے عام نوعیت کے کاموں کو آؤٹ سورس کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔دوسری اہم پیش رفت پاکستان انفارمیشن کمیشن کی جانب سے اسٹیٹ بینک کو ایک ہزار بڑے قرض نادہندگان کی فہرست تین ہفتوں میں منظر عام پر لانے کا حکم کا دیا جانا ہے ۔قرض نادہندگان کے معاملے کی تفصیل یہ ہے کہ پاکستان انفارمیشن کمیشن نے ایک ہزاربڑے قرض نادہندگان کی فہرست افشا کرنے کے فیصلے کے خلاف اسٹیٹ بینک کی آخری نظر ثانی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے مذکورہ معلومات 5ستمبر تک پبلک کرنے کا حکم دے دیا ہے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک حکام نے کمیشن میں پیش کی جانے والی اپنی نظر ثانی کی اپیل میں یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ ان کے پاس 1000بڑے قرض نادہندگان کی فہرست موجود ہے لیکن وہ اس لیے اس کو شیئر نہیں کر سکتے کہ ان معلومات کو افشا کرنے کے حوالے سے استثنیٰ حاصل ہے۔ بینکنگ کمپنیز آرڈنینس 1962کے سیکشن 13A جو ’’وفاداری اور راز داری‘‘ کے بارے ہے میں بتایا گیا ہے کہ ہر بینک اور مالیاتی ادارہ،جب تک اسے قانون کے مطابق ضرورت نہ ہو اپنے صارف کی کوئی معلومات کسی سے شیئر نہیں کرے گا۔ تاہم انفارمیشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ اسٹیٹ بینک کا کردار ایک ریگولیٹر کا ہے ،وہ قرض نادہندگان کا ریکارڈ اپنے پاس رکھنے کا پابند نہیں ہے۔ اسٹیٹ بینک یہ ریکارڈ متعلقہ بینکوں سے حاصل کرکے بھی فراہم کر سکتا ہے۔ حکومتی ادارے کو معلومات کی رسائی کے سامنے دیوار بننے کے بجائے ایک اچھے اور فعال و چوکس ریگولیٹر کے طور پر اپنا کردار ادا کر نا چاہیے۔ انفارمیشن کمیشن کے سربراہ شعیب صدیقی کے مطابق اسٹیٹ بینک کو 5ستمبر عملدرآمد کی مہلت دی گئی ہے۔ اگر حکم عدولی ہوگی تو اسٹیٹ بینک حکام کے خلاف رائٹ ٹو ایکسس آف انفارمیشن ایکٹ 2017کے سیکشن 20 اور 22کے تحت سخت کارروائی عمل میں لائی جاسکتی ہے۔ کمیشن کے اس فیصلے کی اہمیت محتاج وضاحت نہیں۔ اس پر عمل درآمد ہوگیا تو پاکستان میں دولت مند طبقوں کے لیے بھاری قرضے لے کر انہیں ہضم کرجانے یا معاف کرالینے کی مذموم روایت کا خاتمہ ممکن ہوجائے گا۔اس فیصلے کے بعد کم از کم ایسے بڑے نادہندگان کے ناموں کو صیغہ راز میں رکھے جانے کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے بند ہوجانا چاہیے جو بھاری قرضے لے کر اپنے اثر و رسوخ کے بل پر انہیں معاف کرالیتے ہیں۔ یہ نا انصافی اب مستقل طور پر ختم ہوجانی چاہیے کہ چند لاکھ کے غریب نادہندگان کی تو جائیدادیں ضبط کرلی جائیں اور کھربوں کے اثاثے رکھنے والے کروڑوں اور اربوں کے نادہندگان کسی قانون کی گرفت میں نہ آئیں۔