آئی پی پیز معاہدے معیشت کیلئے زہر قاتل

تحریر:ہارون نعیم مرزا۔۔۔مانچسٹر
18 اگست ، 2024

آئی پی پیز کے حکومت پاکستان کے ساتھ معاہدے منظر عام پر لانے کا مطالبہ تحریک بنتا جا رہا ہے جماعت اسلامی نے راولپنڈی اور کراچی میں احتجاجی دھرنے دیئے۔ بڑی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان نے بھی ان دھرنوں کی نہ صرف حمایت بلکہ شمولیت کا بھی اعلان کیا ۔ آئی ایم ایف کے ہاتھوں یرغمال حکومت پاکستان نے بجلی کے بلوں میں کئی سو گنا اضافہ کر کے عوام کو سڑکوں پر آنے پر مجبورکر دیا ،کہیں بھائی کے ہاتھوں بھائی قتل تو کہیں لوگ ادویات کے پیسے بجلی کے بلوں میں خرچ ہونے پر خودکشی کرنے پر مجبورہیں۔بجلی کے بلوں کی ادائیگی وبال جان بن گئی ہے ،لوگ حکومت کو بدعائیں دیتے نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں بجلی پیدا کرنے والے نجی ادارے آئی پی پیز کو کی جانے والی کیپسٹی پیمنٹ کی ادائیگیوں کو لے کر ایک وبال کھڑا ہے۔ عوام سوال کر رہے ہیں کہ یہ کارخانے بجلی بناتے ہی نہیں تو ان کو اربوں روپے کی ادائیگیوں کی کیا ضرورت ہے ۔ یہ الزام بھی ہے کہ ان آئی پی پیز کے پیچھے دراصل ملک کی اشرافیہ بشمول سیاستدان اور کاروباری شخصیات ہیں جو بے جا فائدہ اٹھا رہے ہیں بعض حکومتی عہدیداروں کے عزیز واقارب اور رشتہ دار بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔ گنے کے پھوک سے چلنے والے بجلی کے کارخانوں کو صرف اس بجلی کی قیمت ادا کی جاتی ہے جو گرڈ کو دی جاتی ہے اور اگر پلانٹ نہیں چل رہا تو اسے ادائیگی نہیں کی جاتی اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا واقعی بیگاس سے چلنے والے بجلی گھروں کو کپیسِٹی پیمنٹ نہیں کی جاتی ،ملک میں موجود آئی پی پیز کے مالکان کون ہیں ،کپیسٹی پیمنٹ کو لے کر اس ساری بحث کا آغاز اس وقت ہوا جب پاکستان کے سابق نگران وزیر تجارت گوہر اعجاز نے سوشل میڈیا پر اکاؤنٹ پر پاور پلانٹس کو کی جانے والی ادائیگیوں کی تفصیلات جاری کر دیں جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ مالی سال کے دوران پاور پلانٹس کو کپیسٹی پیمنٹ کی مد میں 1900ارب روپے کی ادائیگی کی گئیں، کیپسٹی پیمنٹ سے مراد وہ ادائیگی ہے جو ہر ماہ صارف کی جانب سے بجلی بنانے والی کمپنی کو اس کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کو برقرار رکھنے کے لیے کی جاتی ہے جو صارفین کی جانب سے بجلی کی اضافی مانگ کی صورت پر مہیا کی جا سکے لیکن جب کوئی پلانٹ اپنی پوری صلاحیت پر اس لیے بجلی پیدا نہیں کرتا کیونکہ ملک میں اس کی مانگ نہیں تو ایسے وقت میں ان پاور پلانٹس کو فعال رکھنے کے لیے کپیسٹی پیمنٹ کی جاتی ہے پاکستان میں اس وقت آٹھ آئی پی پیز ایسے ہیں جو بیگاس سے بجلی پیدا کرتے ہیں جن میں سے سات پنجاب اور ایک سندھ میں واقع ہے، ان آٹھ پاور پلانٹس کی مجموعی انسٹالڈ کپیسٹی 259میگاواٹ ہے پاکستان کی بااثر سیاسی شخصیات اور اس کے عزیز و اقارب بھی آئی پی پیز معاہدوں سے اربوں روپے کمانے والوں میں سرفہرست ہیں۔نیپرا کے سابق چیئرمین توصیف فاروقی نے آئی پی پیز پر اٹھنے والے شو ر پر لب کشائی کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ادائیگیاں تو گزشتہ کئی برسوں سے کی جا رہی ہیں لیکن اس پر کبھی کوئی بحث نہیں ہوئی تاہم جب ڈالر ریٹ بڑھا اور ادائیگیوں کی مالیت بہت زیادہ بڑھنے کی وجہ سے صارفین پر بوجھ پڑا تو پھر یہ بحث شروع ہوئی کہ یہ ادائیگیاں کیسے صارفین پر بوجھ بن رہی ہیں جس حساب سے یہ پلانٹس لگائے گئے اگر پاکستان کی معیشت سات فیصد کی شرح سے ہر سال ترقی کرے تو پھر بجلی کی اتنی زیادہ کھپت ہو سکتی ہے لیکن معیشت میں یہ گروتھ نہیں ہو سکی اور یہ مسئلہ بن گیا، ڈالر کی قیمت بڑھنے کے ساتھ ادائیگیوں کا حجم بھی بڑھا اور عوام پر بوجھ بڑھ گیا۔ جماعت اسلامی کے مرکزی امیر حافظ نعیم الرحمان کا کہنا ہے کہ حکمرانوں کے لیے سیدھا راستہ یہی ہے کہ وہ مطالبات تسلیم کرلیں ورنہ احتجاج کا دائرہ کار بڑھتا جائے گا۔اگر مذاکرات میں سچ جھوٹ اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنا ہے تو پھر میڈیا کے سامنے مذاکرات کرلو، بجلی بلوں سے فیکٹریاں بند، گھریلو نظام مفلوج، لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبورہیں، تاجر اوربزنس کمیونٹی پاکستان چھوڑ کر بھاگ رہی ہے، لاکھوں لوگ بیروزگار ہیں چند حکومتی لٹیرے آئی پی پیز کے نام پر خزانے کو دیمک کی طرح خالی کررہے ہیں۔آئی پی پیز کے محرکات وڈیرہ شاہی مائنڈ سیٹ سے سیاسی جماعتوں کو یرغمال بناتے ہیں یہ شاہ خرچیاں بیوروکریسی کی صورت میں ہے سیاستدانوں‘ فوج کے جرنیلوں کی صورت میں ہم پر مسلط ادارے ہیں یہ کوئی فوج نہیں، سیاسی ادارہ نہیں بلکہ ایک مخصوص طبقہ ہے جو ایک دوسرے کی کرپشن کو چھپاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے دورحکومت میں شروع ہونے والا دھندہ پرویز مشرف دور اور پھر ن لیگ کے دور میں بھی جاری رہا اور اب تک جاری ہے ۔