71 فیصد مسلمان سمجھتے ہیں کہ برٹش میڈیا ان کی منفی منظر کشی کرتا ہے

18 اگست ، 2024

لندن (مرتضیٰ علی شاہ) 71فی صد مسلمان سمجھتے ہیں کہ برٹش میڈیا ان کی منفی منظر کشی کرتاہے،انسٹی ٹیوٹ فار دی امپیکٹ آف فیتھ ان لائف کی ریسرچ (IIFL) کے مطابق زیادہ تر مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ ان کا مذہب ان کے ثقافتی ورثے سے جڑا ہواہے۔ وہائٹ اسٹون انسائیٹ کی جانب سے کئے گئے سروے کے مطابق 60فیصد مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ ان کا مذہب ان کے ثقافتی ورثے سے جڑا ہوا ہے۔ اگر ان مسلمانوں کو جو یہ کہتے ہیں کہ اسلام ایک سچا مذہب  ہے، ملالیاجائے تو یہ شرح 68فیصد ہوجاتی ہے ،سروے سے ظاہرہوتاہے کہ برطانوی مسلمان مختلف ثقافتی اور نسلی پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں 39فیصد مسلمان خود کو پاکستانی کہتے ہیں 14فیصد بنگلہ دیشی، 10فیصد سیاہ فام افریقی 9فیصد عرب اور 9فیصد بھارتی ہیں ،سروے سے یہ بھی ظاہرہواکہ برطانوی اس بات پر بھی کم وبیش متفق ہیں کہ عام انتخابات میں ووٹ دیتے وقت بھی انھوں نے مذہب کو مدنظر رکھا جبکہ 51مسلمانوں ،20فیصد عیسائیوں اور 31فیصد ہندوئوں نے بھی ووٹ دیتے وقت اپنے مذہب کو مد نظر رکھا۔ مسلمانوں کو اس بات پر تشویش ہے کہ برٹش میڈیا ان کی منفی منظر کشی کرتاہے،بہت سوں نے اپنے انٹرویو میں اس بات پر تشویش ظاہرکی کہ میڈیا میں مسلمانوں کی شخصیت مسخ کرکے پیش کی جاتی ہے جس سے موجودہ مسلم دشمن نفرت اور تعصب کو ہوا ملتی ہے، برطانوی مسلمانوں کو یہ شکایت ہے کہ میڈیا بعض مذاہب کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ منفی انداز میں پیش کرتا ہے۔71فیصد مسلمانوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ گزشتہ4ہفتوں کے دوران میڈیا نے بعض مذاہب کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ منفی انداز میں پیش کیا۔ IIFL کی ریسرچ ایسوسی ایٹ رانیا محی الدین کا کہناہے کہ اگر برٹش مسلمانوں کی روزمرہ زندگی پر مذہب کے اثرات کو مدنظر رکھا جائے تو دو بہت اہم نکات ابھر کر سامنے آتے ہیں، پہلا یہ کہ اس سے ذاتی مذہب کے حوالے سے ایک خاص بے بسی کا اظہار ہوتا ہے جو ثقافتی ورثے ،کمیونٹی شناخت اور ممکنہ حد تک سماجی دبائو پر اثر انداز ہوتاہے، دوم اس سے برطانوی مسلمانوں کے درمیان مختلف طبقوں کا اظہار ہوتاہے اور مسلمانوں کو ایک واحد کمیونٹی گروپ قرار دینا بہت مشکل ہے۔کثیرالثقافتی مسلم معاشرے کی وجہ سے اسلام اور اسلامی اصولوں کے بارے میں بھی مختلف نظریات یا عقائد سامنے آتے ہیں یہاں تک کہ برطانیہ میں مسلمان عید بھی اپنے اپنے ملکوں کے اعتبار سے مختلف دنوں میں مناتے ہیں، ثقافتی آگہی اور متحد کرنے کیلئے مذاکرات میں ان کو مدنظر رکھنا بہت ضروری ہے، قطع نظر اس کے کہ میڈیا کی کوریج کے کیا اثرات رونماہوتے ہیں مسلمانوں کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ میڈیا کا یہ رویہ تشویشناک ہے کیونکہ بد گمانیاں بڑھ سکتی ہیں۔ اس  نئے دور کے میڈیا، انفلوانسرز اور بعض ثقافتی کمیونٹیز افواہوں اور وہاٹس اپ رپورٹنگ پر انحصار کرنے لگتے ہیں جن میں سے کوئی بھی کسی قاعدے قانون اور اخلاقی اصولوں کا پابند نہیں ہوتا ،طویل المیعاد ریسرچ سے یہ ظاہرہوگا کہ آیا یہ وقتی صورت حال ہے یا برٹش مسلمانوں کی کمیونٹی میں میڈیا کے طرز عمل پر شعور پیداہورہاہےاور میڈیا پر اس وقت تک تنقید جاری رہے گی جب تک وہ متوازن طرز عمل اختیار نہیں کرتا۔ میڈیا کے اداروں کیلئے یہ اہم الرٹ ہے اور میڈیا کے اداروں کو اس پر غور کرنا چاہئے۔