حکمران پشتون ملت کو اس ملک کا حصہ ہی نہیں سمجھتے، پشتونخوا نیپ

18 اگست ، 2024

چمن (پ ر) پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی کے صوبائی صدر نصراللہ خان زیرے نے چمن میں جاری پرلت کے ہزاروں شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ امر افسوسناک ہے کہ چمن پرلت کے نمائندوں سے حکومتی اور اسٹیبلشمنٹ کے ذمہ دار آفیسران نے صوبے کی اہم شخصیات کے سامنے قرآن مجید پر ہاتھ رکھ کر اُن کے مطالبات تسلیم کرنے کا وعدہ کیا اور پھر 21 جولائی کو چمن میں باقاعدہ طور پر اعلان کیا گیا کہ کل سے ڈیورنڈ لائن پر لوگ بغیر پاسپورٹ کے محض شناختی کارڈ اور تذکیرہ پر آمد ورفت کرسکتے ہیں مگر اس پر عمل نہیں کیا گیا جس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ حکمران اور اسٹیبلشمنٹ پشتون ملت کو اس ملک کا حصہ ہی نہیں سمجھتے اور نہ ہی چمن کے اس طویل احتجاج کی انہیں کوئی پروا ہے اب مجبوراً چمن پرلت دوبارہ شروع کیا گیا ہے اس سے پہلے مرکزی سینئر سیکرٹری سید قادر آغا ایڈووکیٹ، مرکزی سیکرٹری حاجی اعظم خان مسے زئی، صوبائی صدر نصراللہ خان زیرے، صوبائی ایگزیکٹیوز کے ارکان احمد خان لونی، ندا سنگر، سوراعظم اچکزئی، حیات خان اچکزئی کی قیادت میں وفد نے احتجاج پرلت میں شرکت کی ،جس میں ضلع قلعہ عبداللہ خان کے ضلع سینئر معاون سیکرٹری رمضان خان مسے زئی، باچا خان کاکڑ، شمس اللہ خان اچکزئی، حاجی عبدالحلیم خان کاکڑ، انجینئر ارین خان بڑیچ، ملک عبدالظاہر خان کاکڑ، شیر خان خلجی، عبدالوہاب خان اور احسان اللہ اور دیگر پارٹی کارکن بھی اُن کے ہمراہ تھے۔ احتجاجی پرلت سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی صدر نصراللہ زیرے نے کہا کہ چمن کے محنت کش اور عوام نے 21 اکتوبر 2023 کو اُس کے وقت نام ونہاد نگران حکومت اور اسٹيبلشمنٹ نے چمن کے ڈیورنڈ لائن پر پاسپورٹ کو لازم قراردیا تھا جس کے خلاف احتجاجی دھرنا شروع ہوا کیونکہ فرنگی استعمار کے دور سے جب افغان سرزمین کو 1893 میں ایک نام نہاد لائن کے ذریعے تقسیم کیا گیا اور پشتونخوا وطن کو اُس وقت برصغیر کا حصہ قرار دیا گیا مگر 2800 کلومیٹر ڈیورنڈ لائن پر عوام کا آنا جانا اور تجارت کے ساتھ سماجی زندگی جاری رہی اور جب 1947 میں اس ملک کا قیام میں لایا گیا تب بھی ڈیورنڈ لائن پر عوام اپنی تجارت اور آمد ورفت کا سلسلہ بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہا اور پھر اچانک ایک غیر منتخب نگران حکومت جن کو ایسے پالیسیوں کے اجراء کا کوئی اختیار نہیں تھا۔ انہوں نے ڈیورنڈ لائن اور بلخصوص چمن میں پاسپورٹ کو آمد ورفت کیلئے لازمی قرار دیا حالانکہ ڈیورنڈ لائن اور بلخصوص چمن کے علاقے میں عوام ایک ہی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جنکی زمینیں مشترک ہیں اور ایسا بھی ہے کہ گاؤں ڈیورنڈ لائن کے اس پار ہے جبکہ قبرستان دوسری جانب ہے اور کئی گاؤں میں بھائیوں کے گھر بھی تقسیم ہوئے ایسی صورتحال میں ڈیورنڈ لائن پر پاسپورٹ کا اجراء کسی بھی طرح ہمارے عوام کیلئے قبول نہیں اور اس کے علاوہ اس غیر آئینی اور غیر قانونی پاسپورٹ کی شرط نے ہماری معاشی زندگی اور بلخصوص چمن کے ہزاروں عوام زندگی تباہ ہوگئی اور کم وبیش روزانہ 20 ہزار سے زائد لوگ آمد ورفت کرتے تھے مگر اس کی وجہ سے عوام بے روزگار ہوگئے اور چمن کے عوام نان شبینہ کیلئے مجبور ہوگئے ،اس دوران حکومت نے مذکرات کا سلسلہ شروع کیا جو کئی دن پر محیط تھا اور پھر قرآن مجید پر ہاتھ رکھ کر پرلت کے نمائندوں سے اُن کے مطالبات تسلیم کرنے کا وعدہ کیا اور آخر کار 21 جولائی کو چمن میں ہزاروں لوگوں کے سامنے ان کے مطالبات تسلیم کرنے کی نوید سنائی گئی جس پر ایک دو روز عمل ہوا مگر اُس کے بعد اب تک ڈیورنڈ لائن پر آمد ورفت پر پابندی عائد کی گئی اور ایک بار پھر کہا گیا کہ پاسپورٹ کے ذریعے محنت کش اپنے دکانوں اور مارکیٹوں کو ڈیورنڈ کے اُس پار ویش منڈی جائینگے جس سے مجبور ہوکر ایک بار پھر پرلت کا آغاز کیا گیا۔