عدلیہ میں ماضی کی نسبت شفافیت آگئی، ایکسٹینشن قبول نہیں کروں گا، چیف جسٹس

10 ستمبر ، 2024

اسلام آباد( رپورٹ:،رانامسعود حسین)چیف جسٹس قاضی فائر عیسی ٰنے اس تاثر کو رد کردیا کہ وہ بطور چیف جسٹس اپنی مدت ملازمت میں کسی قسم کی توسیع لیناچاہتے ہیں،جوڈیشل کمیشن کے ایک اجلاس کے بعد اس بارے میں بات ہوئی تھی لیکن میں نے صاف انکار کردیا تھا، ایکسٹینشن قبول نہیں کروں گا ،انہوں نے کہا ہے کہ د وسروں کا احتساب کریں اور عدلیہ اپنا احتساب نہ کرے تو فیصلوں کی اہمیت نہیں رہتی ، پارلیمنٹ کا کام قانون سازی کرنا ہے ، اگر کوئی قانون بنیادی حقوق سے متصادم ہو تو اسے کالعدم قرار دیا جاتا ہے،ہمارا کام قانون کی تشریح کر نا ہے،،انہوں نے بطور چیف جسٹس پچھلے ایک سال کے دوران اٹھائے گئے اقدمات کاتفصیلی ذکرکرتے ہوئے کہا کہ ان اقدامات کے باعث عدلیہ میں ماضی کی نسبت شفافیت آ گئی، سپریم کورٹ میں تاریخیں دینے کا رواج ختم ہوچکا، پہلے بینچ دیکھ کر ہی بتادیا جاتا تھا کہ کیس کا فیصلہ کیا ہوگا؟ ب توخود مجھے بھی معلوم نہیں ہوتا کہ میرے دائیں بائیں جانب کون سے جج کیس کی سماعت کرینگے؟ روزانہ ججوں پر جھوٹے سچے الزامات لگا دئیے جاتے ہیں، آرٹیکل 5 میں ترمیم کرکے ججوں کو الزامات پر جواب دینے کا موقع دے دیاگیا،جج اکیلے کچھ کام نہیں کرسکتے انہیں انصاف کی فراہمی کے عمل میں وکلاء اور صحافیوں کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے، صحافی تنقید ضرور کریں، لیکن جھوٹی خبریں نہ چلائیں،انہوں نے ان خیالات کا اظہار پیر کو سپریم کورٹ میں نئے عدالتی سال کی شروعات کے موقع پر منعقدہ فل کورٹ ریفرنس سے خطاب اور صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ،سپریم کورٹ کے سنیئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ بیرون ملک ہونے اور ایڈہاک جج جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل بھانجے کی وفات کے باعث فل کورٹ ریفرنس میں شریک نہیں ہوسکے جبکہ دوسرے سینئر ترین جج ،جسٹس منیب اختر بھی اس موقع پر موجود نہیں تھے۔چیف جسٹس نے صحافیوں سے غیر رسمی بات چیت کرتے ہوئے بتا یا کہ جوڈیشل کمیشن کے ایک اجلاس کے بعد وزیر قانون نے تمام چیف جسٹسز کی مدت ملازمت میں تو سیع کے حوالے سے بات کی تھی، جس پر میں نے کہا تھا کہ باقی ججوں کی کردیں لیکن میں صرف اپنے لیے توسیع قبول نہیں کروں گا۔ایک سوال کیا کہ وزیر اعظم کے سیاسی امور کے معاون خصوصی راناثنااللہ کہہ رہے ہیں کہ اگر تمام ججوں کی عمر کی میعاد بڑھا دی جائے تو آپ بھی توسیع لینے پر متفق ہیں،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ رانا ثنا اللہ کو میرے سامنے لے آئیں ،انہوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں کے عدالتی امور میں خفیہ اداروں کی مداخلت سے متعلق خط کا معاملہ سماعت کیلئے مقرر نہ ہونے سے متعلق سوال پر جواب دیا کہ اس معاملے کو سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر )ایکٹ 2023کے تحت قائم تین رکنی کمیٹی نے مقرر کرنا ہے، جسٹس مسرت ہلالی طبیعت کی ناسازی کی بناء پر نہیں آرہی تھیں اس وجہ سے بینچ نہیں بن پا رہا تھا،انہوں نے نئے عدالتی سال کے اہداف سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ کیس منیجمنٹ سسٹم میں بہتری لائیں گے۔قبل ازیں چیف جسٹس نے فل کورٹ ریفرنس کے شرکاء سے خطاب کے دوران صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹوں پر زور دیا کہ وہ مثبت رپورٹنگ اور حقائق پر مبنی تجزیے کیاکریں،انہوں نے کہا کہ مقدمات کی کارروائی کو براہ راست نشر کرنے کا مقصد عوام تک براہ راست اپنی کارکردگی دکھانا تھا،چیف جسٹس کو 3 ہزار سی سی مرسڈیز بینز(کار) کی ضرورت نہیں تھی، لاہور رجسٹری میں کھڑی بلٹ پروف لینڈ کروزر بھی حکومت کو واپس بھیجتے ہوئے کہا ہے کہ ان گاڑیوں کو بیچ کر عوام کیلئے بسیں خریدے ، ہمیں ٹویوٹا اور دوسری گاڑیاں چلانے میں کوئی تکلیف نہیں،انہوں نے کہاکہ سپریم کورٹ کی کراچی برانچ رجسٹری کیلئے سات ایکڑزاراضی پچاس ارب روپے کے بجٹ سمیت وفاقی حکومت کو واپس کردی اور ہدایت کی ہے کہ یہاں پرکراچی شہر میں قائم وفاق کے زیر انتظام 36مخصوص عدالتوں اور ٹربیونلز کے لیے عمارت تعمیر کی جائے،انہوں نے کہا کہ شریعت اپیلیٹ بینچ میں ڈاکٹر قبلہ آیاز کو مقرر کیاگیا،سپریم کورٹ میں اب دو عالم جج موجود ہیں،نئے عدالتی سال کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اٹارنی جنرل، بیرسٹر منصور عثمان نے سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 60 ہزار سے تجاوز کر چکی ، ان میں کمی لانی چاہیے، امید کی جاسکتی ہے کہ اجتماعی کوششوں سے بہتری آئے گی۔پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین فاروق ایچ نائیک نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ججوں کی تقرری کا طریقہ کار تمام فریقین کی مشاورت سے تبدیل ہونا چاہیے، سپریم کورٹ میں لائیو اسٹریمنگ کے اقدام کوخوش آمدید کہتے ہیں،لیکن اسے سیاسی بیانیہ کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے ،سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر شہزاد شوکت ایڈووکیٹ نے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدلیہ میں ادارہ جاتی اتحادنہایت ضروری ہے ،عدلیہ میں تقسیم سے اس پر عوام کا اعتماد مجروح ہوتا ہے.