عدلیہ میں ماضی کی نسبت شفافیت آگئی، ایکسٹینشن قبول نہیں کروں گا، چیف جسٹس

10 ستمبر ، 2024

اسلام آباد(نیوز ایجنسیاں) چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ عدلیہ میں ماضی کی نسبت شفافیت آگئی ہے،پہلے بنچ دیکھ کربتادیا جاتا تھا فیصلہ کیا ہوگا،اب مجھے پتہ نہیں ہوتا،سسٹم میں بہتری کیلئے بہت سے اقدامات کئے،سپریم کورٹ میں 15 ہزار سے زائد کیسز نمٹائے،ہر جج کا کچھ رجحان ہوتا ہے اب کسی کی قسمت کیس کہا ں لگتاہے، آزادی اظہار رائے پر کبھی قدغن نہیں لگائی ،پارلیمان قانون بناتی ہے ہماراکام تشریح کرنا ، قانون کسی آئینی شق کے خلاف ہوتو کالعدم قراردے سکتے ہیں، اپنی مدت ملازمت میں کسی قسم کی توسیع نہیں چاہتا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے نئے عدالتی سال کے آغاز پر فل کورٹ ریفرنس سے خطاب اور میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کی۔صحافی نے سوال کیا کہ رانا ثناء اللہ کہہ رہے ہیں کہ اگر تمام جج صاحبان کی عمر بڑھا دی جائے تو آپ بھی ایکسٹینشن لینے پر متفق ہیں؟اس پر چیف جسٹس نے جواب دیا کہ رانا ثناء اللہ کو میرے سامنے لے آئیں، ایک میٹنگ ہوئی تھی جس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، جسٹس منصور علی شاہ صاحب اور اٹارنی جنرل موجود تھے، اس میٹنگ میں رانا ثناء اللہ موجود نہیں تھے، بتایا گیا تمام چیف جسٹسز کی مدت ملازمت میں توسیع کر رہے ہیں، میں نے کہا کہ باقیوں کی کر دیں میں صرف اپنے لئے قبول نہیں کروں گا، مجھے تو یہ نہیں پتہ کہ کل میں زندہ رہوں گا بھی یا نہیں۔ فل کورٹ ریفرنس سے خطاب میں چیف جسٹس سپریم کورٹ قاضی فائرعیسیٰ نے کہا کہ مجھے 9 دن بعد بطور چیف جسٹس ایک سال مکمل ہو جائیگا، میں جب چیف جسٹس بنا تو 4سال میں پہلی مرتبہ فل کورٹ بلایا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے سپریم کورٹ کی پروسیڈنگ کو براہ راست نشر کرنے کا آغاز بھی کیا، پہلا مقدمہ براہ راست دکھایا گیا وہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا تھا جو فل کورٹ نے ہی سنا، اس فیصلہ کے بعد اختیار چیف جسٹس سے لیکر 3 ججز کو سونپے گئے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں کیس میں سے بدنیتی کا عنصر نکال دیتا ہوں۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کچھ مخصوص قسم کے کیسز جن کا قانون میں اندراج ہے ،اس کا فیصلہ مقننہ نے کیا ہے کہ وہ اہمیت کے حامل کیسز ہیں، ہم نے خود بھی کچھ کیسز کے احکامات جاری کیے ہیں کہ وہ جلدی لگیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے کبھی کبھی ہنسی آتی ہے،پرانے صحافیوں کو کوئی بات پسند نہ آئے تو کہتے ہیں چیف جسٹس نے مقدمہ نہیں لگایا، تبصرے ضرور کیجیے حقیقت کی بنیاد پر مفروضوں پر نہیں، آپکی ذمہ داری ہے سچ بتائیں اور سچ بولیں۔