اسلام آباد (فاروق اقدس/تجزیاتی جائزہ) قومی اسمبلی میں 8 اور سینٹ میں 5ارکان کے ووٹوں کی طاقت سے حالیہ دنوں میں قومی سیاست کی توجہ کا مرکز و محور بننے والے مولانا فضل الرحمان اس لئے بھی اہمیت کا حامل بنے ہیں کہ حکومت آنے والے دنوں میں جو قانون سازی کرنا چاہتی ہے اور جسے مجوزہ طور پر آئین سے متصادم قرار دیا جا رہا ہے اس کیلئے حکومت کے نزدیک ایک ایک ووٹ کی قدروقیمت انتہائی گرانقدرہے صدر اوروزیراعظم سے ملاقاتوں کے بعد مولانا فضل الرحمان کی علی درانی سے طویل ملاقات کا مقصد، خیالات کا تبادلہ یا پیغامات ؟ فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ آئینی ترامیم کی حمایت نہیں کرینگے، اپوزیشن میں ہی رہیں گے، اگر مولانا فضل الرحمان قانون سازی کے مرحلے میں حکومت کی توقعات کے برعکس کوئی فیصلہ کرتے ہیں تو یہ قانون سازی کسی صورت میں بھی ممکن نہیں ہوسکے گی گوحکومت کسی نہ کسی شکل میں خاموشی کے ساتھ متبادل انتظامات کی سرگرمیوں میں بھی مصروف ہے لیکن ان کی کوشش ہے کہ قانون سازی میں مطلوبہ ووٹوں کی تعدادمولانا کے تعاون اور اشتراک سے ہی ہو۔ گزشتہ دنوں صدر آصف علی زرداری اپنے صدارتی منصب کے جاہ و جلال اور تمکنت کو ایک طرف رکھتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کی رہائش پر پہنچ گئے تھے اور اس ملاقات میں انہوں نے مولانا صاحب کو تحفے میں ایک بندوق کا تحفہ بھی دیا تھا لیکن مولانا کے رفقاء کے مطابق صدر نے خالی بندوق دی تھی اس میں گولیاں نہیں تھیں اس لئے ظاہر ہے کہ انہوں نے مولانا کیلئے کسی حدف کا تعین بھی نہیں کیا ہوگا۔ صدر سے ملاقات کے اگلے ہی روز وزیراعظم شہباز شریف بھی اپنی کابینہ کے طاقتور اراکین کے ہمراہ مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ پر پہنچے تھے جہاں خوشگوار ماحول میں بات چیت ہوئی اور جہاں ایک طرف مولانا فضل الرحمان کے چہرے پر یقین کا اطمینان دیکھا گیا وہیں وزیراعظم اور ان کی ٹیم کے ارکان کے چہروں پر بھی فتح مندی کی سرشاری موجود تھی۔ یہ ملاقاتیں اور تاثر پاکستان تحریک انصاف کیلئے سیاسی طور پر کسی دھچکے سے کم نہیں تھا کیونکہ اڈیالہ جیل کی منظوری سے اسد قیصر کی سربراہی میں قائم پاکستان تحریک انصاف کی کمیٹی مولانا فضل الرحمان سے رابطوں اور ملاقاتوں میں مصروف تھی اور مختلف ایشوز پر پی ٹی آئی اور جے یو آئی متفقہ حکمت عملی اختیار کرنے کیلئے مشاورتی عمل بھی جاری رکھتے تھے پھر یہ بھی ہوا ہے کہ اعلیٰ حضرت جو موجودہ اسمبلیوں کو خریدوفروخت کے ذریعے قائم کی جانے والی اسمبلیاں قرار دیتے تھے انہوں نے اسی قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں نہ صرف شرکت شروع کر دی۔اب تازہ ترین یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان سے سابق وزیراطلاعات و نشریات محمد علی درانی نے طویل ملاقات کی ہے جو منگل اور بدھ کی درمیانی شب تک جاری رہی جو لوگ محمد علی درانی کے سیاسی اور حکومتی پس منظر اور اسرارو رموز سے واقف ہیں وہ انہیں اسٹیبلشمنٹ کے پیغامبر اور دیرینہ قربت رکھنے والے سیاستدان قرار دیتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ محمد علی درانی بظاہر طویل عرصے سے غیرفعال ہیں اور نہ ہی ان کا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نظر آیا ہے، تاہم اتنا ضرور ہے کہ وہ ملک میں ہونے والی سیاسی اور بحرانی کیفیات میں اچانک ہی منظرعام پر آتے ہیں۔ اب نہیں معلوم کہ محمد علی درانی جو موجودہ صورتحال میں کئی اہم شخصیات سے ملاقاتیں کر چکے ہیں وہ مولانا فضل الرحمان کیلئے کیا کسی کا پیغام لیکر آئے تھے کوئی یقین دہانی کرانے یا ان کی مجموعی گفتگو اور خیالات پڑھنے کیلئے۔
نیویارک بانی پی ٹی آئی کی جانب سے 28؍ جنوری 2025ء کو قائم کردہ پی ٹی آئی کی چار رکنی فارن افیئرز / انٹرنیشنل...
کراچی جیوکے پروگرام ’’کیپٹل ٹاک‘‘ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر مملکت ریلویز ، بلال اظہر...
اسلام آباد ایف آئی اے نےوفاقی دارالحکومت کے مختلف مواضعات میں ایکوائر کی گئی اراضی کی بنیاد پر غیر متعلقہ...
اسلام آباد وفاقی وصو بائی بیورو کریسی کیلئے اہم خبر ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے وفاقی و صوبائی افسران کی گریڈ...
اسلام آ باد وفاقی ملازمین کیلئے اہم خبر ہے کہ کسی بھی اسٹیشن پر عارضی ڈیوٹی کی صورت میں اب انہیں دس دن سے...
لاہور سابق وزیراعظم اور قائد مسلم لیگ ن محمد نواز شریف کی طبیعت ناساز ہوگئی ، انہیں ڈاکٹرز نے مکمل آرام کرنے...
اسلام آ باد وزیر اعظم آفس کے فرائض اب نئے انداز سے انجام دیے جائیں گے۔ وزیر اعظم آفس کے کام کی موثر انداز...
اسلام آباد پاکستان کے زر مبادلہ کے مجموعی سیال ذخائر 14 مارچ 2025ء کو 16,015.8 ملین ڈالر تھے۔ اسٹیٹ بینک آف...