عدالتی اصلاحات کیلئے آئینی پیکج نکات کیا ہیں ؟ آ ئینی عدالت کے قیام کی تجویز

15 ستمبر ، 2024

اسلام آ باد ( رانا غلا م قادر) عدالتی اصلاحات کیلئے آئینی ترامیم کے پیکج کے نکات کیا ہیں ؟ یہ وہ سوال ہے جو سیا سی اور قانونی حلقوں میں زیر بحث ہے۔اس پیکج میں آ ئینی عدالت کے قیام کی تجویز بھی دی گئی ہے،آئینی عدالت کے قیام کا مقصد آئینی اور مفاد عامہ کے مقدمات کو الگ الگ ،عدالت عظمیٰ پر بوجھ کم کرنا ہے ،چیف جسٹس تقرری سنیارٹی بجا ئے پینل کے ذریعے کرنے، پار لیمانی کمیٹی کو زیادہ با اختیار بنانے کی تجاویز ،بیرسٹر عقیل ملک نے بتایا کہ جے یو آئی-ف رہنما مولانا فضل الرحمان نے اصلاحات کے حوالے سے قابل قدر ان پٹ دیا،حکمران اتحاد کے باہمی مشورے رات گئے تک جاری رہے ،بل کو جے یوآئی ف سر براہ مو لا نا فضل الرحمن کی تجاویز کی روشنی میں حتمی شکل دینے پر کام جاری رہا۔مولانا کا کردار آئینی بل میں اہمیت اختیار کرگیا ہے کیونکہ وہ حکومت اور پی ٹی آئی دونوں سے رابطے میں ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ پی ٹی آئی کو بھی مشترکہ نکات پر قائل کرلیا جا ئے ۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ پہلے تو آئینی ترمیمی بل سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں تین برس کے اضافے سے متعلق تھا مگر پیپلز پارٹی خاص طور پر مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے اختیار کیے گئے مؤقف کے باعث اب آئینی ترمیمی بل کو وسیع کیا جا رہا ہے۔حکومتی ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن آئینی کورٹ کے قیام کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس لیے آئینی ترمیمی بل میں آئینی کورٹ کے قیام کی تجویز شامل کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان میثاقِ جمہوریت معاہدے میں آئینی معاملات کے لیے آئینی کورٹ کے قیام کی شق بھی شامل تھی۔آئینی عدالت کے لیے الگ چیف جسٹس کی تعیناتی کی تجویز بھی زیرِ غور ہے۔ نئی عدالت کا مقصد آئینی مقدمات اور مفادِ عامہ کے مقدمات کو الگ الگ کر کے عدالت عظمیٰ پر بوجھ کم کرنا بتایا جاتا ہے،۔وزیراعظم کے مشیر قانونی امور بیرسٹر عقیل ملک نے میڈیا سے گفتگو میں کہاہے کہ حکومت نیک نیتی کے ساتھ عدالتی اصلاحات کے لیے پوری طرح تیار ہے، ان اصلاحات کے ذریعے عدالتی نظام مزید مضبوط ہو گا،حکومت نے طویل عرصے سے زیر التوا اصلاحات کے حوالے سے تمام اتحادی جماعتوں کو آن بورڈ لیا ہے۔جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی-ف) کے رہنما مولانا فضل الرحمان نے ان اصلاحات کے حوالے سے قابل قدر ان پٹ دیاجن کا خیال رکھا جائے گا۔آئینی ترمیم میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں ججز کی تعیناتی کے حوالے سے پارلیمانی کمیٹی کو بااختیار بنانے کے لیے ترامیم بھی شامل کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ذرائع کے مطابق آئینی عدالت میں آئین کے آرٹیکل 184، 185 اور 186 سے متعلق درخواستوں کی سماعت ہو گی، آئینی عدالت کی تشکیل میں چاروں صوبوں اور وفاق کے ججز کی نمائندگی کی تجویز بھی زیر غور ہے، آئینی عدالت میں صوبوں کی طرف سے آئین کی تشریح کے معاملات بھی زیرِ غور آسکیں گے۔ مفاد عامہ کے دیگر کیسز موجودہ سپریم کورٹ میں سنے جائیں گے جبکہ آئینی عدالت اآئینی در خواستوں کی سماعت کرے گی ۔ آئینی عدالت 5 رکنی بنانے کی تجویز ہے۔۔ آئینی عدالت کی تشکیل میں چاروں صوبوں اور وفاق کے ججز کی نمائندگی کی تجویز ہے۔ آئینی عدالت میں صوبوں کی طرف سےآئین کی تشریح کےمعاملات بھی زیرغورآسکیں گے۔ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تعیناتی کے لیے سینیارٹی کی موجودہ بنیاد کو تبدیل کر کے نیا طریقہ کار لانے کی تجویز ہے۔ جس کے تحت چیف جسٹس کی تعیناتی کے لیے تین ججز کے نام پینل کی صورت میں سامنے آئیں گے جن میں سے کسی ایک کو چیف جسٹس مقرر کرنے کا اختیار پارلیمانی کمیٹی کو ہوگا۔ تقرری میں پار لیمانی کمیٹی زیادہ با اختیار اور اس کے کردار کو زیادہ موثر بنا یا جا ئے گا۔