سپریم کورٹ کا اچانک حکم بعض حیران، کچھ پریشان، حکومت ، الیکشن کمیشن کا سخت موقف، سیاست میں تیزی

15 ستمبر ، 2024
انصار عباسی
اسلام آباد.....: الیکشن کمیشن آف پاکستان خصوصی نشستوں کے معاملے میں سپریم کورٹ کے 12؍ جولائی کے مختصر حکم نامے سے متعلق کمیشن کے سوالات کے حوالے سے عدالتِ عظمیٰ 8؍ ججز کی وضاحت پر پریشان ہے۔ کمیشن ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دی نیوز کو بتایا ہے کہ کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے لہٰذا کسی کے دبائو میں نہیں آئے گا۔ ان ذرائع نے الیکشن کمیشن کے حوالے سے سپریم کورٹ کی وضاحت کے لہجے اور مدت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک آئینی ادارے کے ساتھ ایسا سلوک انتہائی غیر منصفانہ ہے۔ یہ تاثر درست نہیں کہ الیکشن کمیشن نے بیرسٹر گوہر علی خان کو پی ٹی آئی کا چیئرمین تسلیم کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کا معاملہ اب تک الیکشن کمیشن میں زیر غور ہے اور اس پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔ الیکشن کمیشن نے ہمیشہ اس معاملے کو جلد از جلد نمٹانے کی کوشش کی ہے۔ تاہم، پی ٹی آئی نے بار بار تاخیری حربے استعمال کیے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں پر اپنا مختصر فیصلہ 12 جولائی 2024 کو سنایا تھا۔ اس کے جواب میں، الیکشن کمیشن نے قانونی مدت کے اندر، یعنی 25 جولائی 2024 کو، اپنی سی ایم اے (CMA) دائر کی تھی۔ تاہم تقریباً 2 ماہ کے بعد، 14 ستمبر 2024 کو سپریم کورٹ نے سی ایم اے پر حکم جاری کیا۔الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کرتے ہوئے کسی قسم کی تاخیر کا ذمہ دار نہیں ہے۔الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے اور وہ اپنے خلاف کسی بھی قسم کی دھمکی کو قبول نہیں کرے گا۔ آئینی اداروں کے ساتھ اس طرح کا برتائو قطعی طور پر نامناسب ہے۔ ہفتہ کو سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ 12؍ جولائی کے فیصلے پر عمل کے معاملے میں کمیشن تاخیری حربے استعمال کر رہا ہے، اور ساتھ ہی پی ٹی آئی کو مخصوص نشستوں کا حقدار قرار دیا گیا۔ 8؍ ججوں کی وضاحت میں الیکشن کمیشن کو بتایا گیا ہے کہ اگر اس نے اپنی قانونی ذمہ داریاں ادا نہ کیں تو سنگین نتائج ہوں گے۔ ججز نے اپنی وضاحت میں کہا ہے کہ عدالت کے سامنے ایک ساتھ رکھے گئے ریکارڈ اور مختصر حکم کی روشنی میں اس پر غور کے بعد اس بات میں کوئی شک نہیں رہتا کہ کمیشن کی طرف سے جو وضاحت طلب کی گئی ہے، وہ جان بوجھ کر پیدا کردہ تاخیری حربے کے سوا کچھ نہیں۔