اسرائیل کی ٹیکنالوجی جنگ!

اداریہ
20 ستمبر ، 2024

منگل اور بدھ کے روز اسرائیل کے لبنان کے مختلف حصوں میں حزب اللہ پر سائبر پلس حملوں سے ایک طرف مشرق وسطیٰ کی جنگ میں پھیلائو کے خدشات قوی ہوئے وہاں ایک طرح سے ٹیکنالوجی کے میدان میں اسرائیل کی بعض ایسی تیاریوں کی نشاندہی بلکہ نقاب کشائی ہوئی جن کا اظہار اسرائیل کے آرمی چیف لیفٹیننٹ جنرل ہرزی نے بعض نئے آپریشنل منصوبوں کی منظوری دینے کے بعد کیا، ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس بہت سی صلاحیتیں ہیں جنہیں ہم نے ابھی تک فعال نہیں کیا ۔ دودنوں میں پیجرز ، واکی ٹاکی، اسمارٹ فونز ، لیپ ٹاپ، ریڈیو ڈیوائسز اور سولر پینلز میں نصب بارودی مواد کے ذریعے سے کئے گئے ہزاروں دھماکوں کے نتیجے میں بیک وقت بیروت سمیت لبنان کے مختلف شہروں میں ہونے والے ہزاروں دھماکوں کی گونج عالمی برادری، بالخصوص عرب دنیا کیلئے چشم کشا ہونی چاہئے۔ ان دھماکوں کے نتیجے میں 32افراد شہید اور 3250افراد زخمی ہوئے۔ لبنان کے مختلف مقامات پر آگ لگ گئی اور اسپتال زخمیوں سے بھرگئے۔ امریکہ نے حملوں میں ملوث ہونے سے انکار کیا جبکہ روس، ایران، ترکیہ، حماس، حوثیوں اور اقوام متحدہ سمیت مختلف ذرائع اور سمتوں سے حملوں کی مذمت میں بیانات آئے ہیں۔ ماہرین کے مطابق حزب اللہ کے زیر استعمال پیجرز میں دھماکے ایسی طویل منصوبہ بند کارروائی کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو ممکنہ طور پر سپلائی چین میں گھس کر اور آلات کی لبنان میں ترسیل سے پہلے دھماکہ خیز مواد کے ساتھ جعل سازی کے ذریعے انجام دی گئی۔ گویا جنگ کی ٹیکنالوجی، جو سینکڑوں برس قبل تیر تلوار ڈھال وغیرہ پر مشتمل تھی، مختلف مراحل سے گزرتی ہوئی اب پراسرار پیجرز اور واکی ٹاکی دھماکوںکے دور میں داخل ہوچکی ہے اور اسرائیل تحقیق، ٹیکنالوجی اور مسلسل کاوشوں کے ذریعے نہ صرف انہیں لبنان میں استعمال کرچکا بلکہ اس سے آگے کے مراحل پر دسترس کا دعویدار بھی ہے۔ جہاں تک عربوں کا تعلق ہے وہ افرادی طاقت، ملکوں کی تعداد اور وسائل کی دستیابی کے باوجود آج اگرچہ اسرائیل سے پیچھے محسوس ہورہے ہیں مگر دین اسلام کی آمد کے بعد علم حاصل کرنے کے حکم کی تعمیل میں پرانے علوم کو زندہ کرکے کتابیں لکھ کر، تحقیق کرکے، ایجادات و اختراعات کرکے ایک وقت میں نہ صرف خود جنگی امور سمیت تمام علوم میں آگے بڑھے بلکہ یورپ کو بھی علم کی روشنی سے منور کرنے کا ذریعہ بنے۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ 57مسلم ممالک اپنی افرادی طاقت اور وسائل کے باوجود کتابوں کی اشاعت، تعلیم کے فروغ، تحقیق، ایجادات میں کیونکر پیچھے محسوس ہورہے ہیں۔ جس دور میں روس جیسی طاقت کو اسٹنگر میزائل سے زیر کرنے، طالبان کے ناقابل رسائی ٹھکانوں تک ڈرون حملے کرنے اوراسماعیل ہانیہ کو محفوظ مقام پر نشانہ بنانےکی مثالیں موجود ہیں، اس میں اگر مسلم امہ سمیت عالمی برادری کو کچھ مشکلات کا سامنا ہے تویہ ضرورت بڑھ جاتی ہے کہ توسیع پسند دشمنوں کے منصوبوں سے باخبر رہا جائے اور ان کے توڑ کیلئے تحقیق و ٹیکنالوجی کے میدان میں یکسوئی اور بھرپور توانائی سے کام کیا جائے۔ جہاں تک اسرائیل کا تعلق ہے، اس کے دانشوروں نے چند سو برس قبل دنیا پر قبضہ کرنے کا باقاعدہ روڈ میپ بنایا، اس کی تحریری دستاویزات1897ء میں ایک خفیہ ایجنٹ کے ذریعے دنیا کے سامنے آئیں اور اسرائیل کے قیام سے لیکر آج تک معاملات منصوبے کے مطابق آگے بڑھ رہے ہیں۔ مسلم ممالک سمیت عالمی برادری کو اس خوفناک منصوبہ سے تحفظ کیلئے جدید ٹیکنالوجی کی طرف آنا ہوگا۔ جس طرح ایک ایٹم بم دوسرے ایٹم بم کا ڈیٹرنس ہے، اسی طرح جدید ٹیکنالوجی کے ہتھیاروں کا ڈیٹرنس جدید ٹیکنالوجی ہی ہے جس کی طرف ہمیں فوری، بھرپور اور منظم طور پر آنا ہوگا۔