ڈرامے میں اسکرپٹ اہم ہے یا ہدایت کار

محمود شام
20 ستمبر ، 2024
اداکاری تو اسکرپٹ کے ساتھ بھی بہت مشکل ہوتی ہے۔ اور جب اسکرپٹ کے بغیر کرنی پڑ جائے تو بہت کم اداکار ہوتے ہیں۔ چاہے وہ فلم کے ہوں۔ یا ٹی وی کے یا اسٹیج کے یہ تو اور بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ بہت گھپلے بھی ہوجاتے ہیں۔ بار بار منظر فلمانا پڑتا ہے۔ اس ضمن میں فلم میں یوسف خان یعنی دلیپ کمار کو یاد کرتے ہیں کہ وہ کبھی کبھی اسکرپٹ سے ماورا بول جاتے تھے اور وہی مکالمے اسکرپٹ سے زیادہ پسند کیے جاتےتھے۔ پاکستان کے اداکاروں اور اداکارائوں میں محمد علی اور مسرت نذیر کو یہ انفرادیت حاصل تھی۔
سیاسی زندگی میں بھی امریکہ، برطانیہ، انڈیا، پاکستان میں اسکرپٹ کی حکمرانی تو چلتی ہے۔ سڈنی شیلڈن کی آپ بیتی میں نے پڑھی۔ عصر حاضر کا عظیم ناول نگار۔ فلموں کا اسکرپٹ بھی لکھتا رہا۔ کیا کیا ناول اس کے دنیا بھر میں مقبول ہوئے۔ بعض اوقات اسکرپٹ رائٹر بڑے بڑے اداکاروں سے زیادہ مقبول ہو جاتے ہیں ۔ پاکستان میں ریاض شاہد سے ہماری ملاقاتیں رہی ہیں۔ کیا کیا فلمیں لکھی ہیں۔ ان کے مکالمے فلم کی کامیابی کی ضمانت ہوتے تھے۔ ان کے یہ جملے زبان زد خاص و عام ہیں ’’کہاں سے آئے یہ جھمکے۔ کس نے دیے یہ جھمکے۔‘‘ یہ جھمکے علامت بن کر رہ گئے ہیں۔ جھمکے دیے بھی جا رہے ہیں لیے بھی۔ کوئی جواب طلب کرتا ہے۔ تو یہی آواز آتی ہے کہ جناب والا یہ ہیں ہمارے وسائل۔
ہماری بیگم صبح میں پیام صبح دیکھتی ہیں۔ مجھے بھی ان کا ساتھ دینا ہوتا ہے۔ انیق احمد کو کئی بار یہ بتایا بھی ہے۔ پاکستان میں مذہبی پروگرام بڑے شد و مد سے شروع کیے گئے تھے۔ ان کے ذریعے قوم میں سوال کرنے اور جواب دینے کی عادت پیدا کی گئی۔ پھر بہت سے علماء کو جلا وطن بھی ہونا پڑا۔ جلا وطنی سیاست میں بھی ایک ناگزیر قدم ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اکثر جلا وطنیاں خود ساختہ ہوتی ہیں۔ بہت کامیاب بھی رہتی ہیں۔ اگر جلا وطنی ایک کاروبار بن جائے۔ آپ کی کرنسی ڈالر یا پائونڈ میں تبدیل ہو جائے۔ آج کل بات کا سرا سنبھالنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
میں نے بازار میں دیکھے ہیں دمکتے چہرے
اور طاعون پس پردۂ در دیکھے ہیں
یہ بازار بھی عجب تماشہ گاہ ہوتے ہیں۔ بنیادی حقیقت ہے کہ بازار میں جو بھی آتا ہے۔ نیلام ہونے آتا ہے۔ دسمبر میں کراچی میں ایک کتاب میلہ لگتا ہے۔ جہاں ہر روز لاکھوں کراچی والے۔ حیدر آباد۔ نواب شاہ۔ لاڑکانہ۔ بلوچستان والے آتے ہیں۔ کتابیں خریدتے ہیں تھیلوں میں بھر بھر کے لے جاتے ہیں۔ سینیٹر عرفان صدیقی ایک سال اسی میلے میں مہمان خصوصی کے طور پر آئے۔ فاطمہ حسن بھی ان کے ساتھ تھیں۔ ہم اپنا اسٹال لگائے بیٹھے تھے۔ فی البدیہہ شعر عرض کیا۔
ہم تو بازار میں آبیٹھے ہیں
اب کوئی دام لگانے آئے
بات اداکاری کی ہورہی تھی۔ ہم جو الفت کے تقاضے نبھانے کے لیے شان الحق حقی کو یاد کرتے ہیں:
تم سے الفت کے تقاضے نہ نباہے جاتے
ورنہ ہم کو بھی تمنا تھی کہ چاہے جاتے
ہیرو ہیروئن جب الفت کے تقاضے نباہ رہے ہوتے ہیں تو ہم تماشائی تو اس خیال سے مغلوب ہو جاتے ہیں کہ بس یہ دو ہی ہیں۔
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
ڈرامے کے ہیرو ہیروئن جب قربت کا منظر دکھا رہے ہوتے ہیں تو وہاں ان کے علاوہ کتنے کیمرہ مین ڈائریکٹر، اسسٹنٹ ڈائریکٹر ،اسکرپٹ رائٹر، ٹرانسپورٹ کو آرڈی نیٹر اور بہت سے لوگ ہوتے ہیں۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ہیرو ہیروئن کس طرح ان سب سے قطع نظر محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہیں۔ مکالمے بھی یاد رکھنے ہوتے ہیں۔ بہت کم ہوتا ہے کہ یہ مصنوعی الفت اصل الفت میں ڈھل جائے۔
صرف محبت ہی نہیں برہمی غصہ بھی ان سب کی موجودگی میں کیا جاتا ہے۔ اور سین کٹ ہونے کے بعد پھر وہی ہنسی، مخول، لطیفے۔ جس طرح اب ٹاک شوز میں ہوتا ہے۔ سب کے نزدیک اصل مقصد خوش کرنا ہوتا ہے۔ اپنی پارٹی کے بڑوں کو وہ بھی وقت نکال کر ٹاک شوز بہت غور سے دیکھتے ہیں۔ بعض صدور، چیف ایگزیکٹو تو ان ٹاک شوز کے اوقات کے حوالے سے اپنا یومیہ لائحہ عمل تبدیل کر لیتے تھے۔ ان کے پاس تمام بڑے اینکر پرسنز کے فون نمبر بھی ہوتے تھے۔ وہ انہیں پیغام بھی دیتے تھے۔ ایک وزیر اعظم کے پاس خاص طور پر خواتین اینکر پرسنز کے نمبر ہوتے تھے۔ کبھی زمانہ تھا کہ لیڈر سیاسی رپورٹروں کے نمبر اپنے پاس رکھتے تھے۔ یا ایڈیٹروں سے بول چال رہتی تھی۔ اب زمانہ بدل گیا ہے۔ طاقت کے مراکز بھی بدل رہے ہیں۔
ڈرامے کے اسکرپٹ میں بھی ابتدا، درمیان، کلائمیکس اسی طرح ہوتا ہے۔ جیسے کسی سیاسی ہنگامے میں۔ اسکرپٹ میں پوری کوشش ہوتی ہے کہ آہستہ آہستہ کلائمیکس کی طرف بڑھا جائے۔ پاکستان کی تاریخ میں بڑے بڑے اداکار آئے۔ حکمران آئے۔ لیکن امریکہ کی طرح کوئی ریگن جیسا اداکار اور کامیاب صدر نہیں آیا۔ ہمارے ہاں فنکار سیاست میں آئے کامیاب بھی رہے۔ لیکن مسئلہ ہمیشہ اسکرپٹ کا رہا۔ اب آپ کسی چینل کا ڈرامہ دیکھ لیں۔ کہانی بنیادی طور پر بھی ایک ہی ہے۔ کہیں ٹرائیکا ہے۔ کہیں جوڑی۔ مگر بات آگے بڑھتی ہے۔ بد گمانی سے۔ بد گمانی کیلئے بھی تخلیہ اور خفیہ رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ اگر معاملات بہت صاف شفاف چل رہے ہوں تو ڈرامہ دیکھنے والے اکتا جاتے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں داستان گوئی کی روایات بہت قدیم ہیں اور پختہ بھی۔ دوسرے ملکوں میں باقاعدہ مورخ historianمقرر کیے جاتے ہیں۔ وہ روزانہ کی روزانہ تاریخ قلمبند کرتے ہیں۔ اس میں زیادہ انحصار میٹنگوں کے minutsیعنی کارروائی پر کیا جاتا ہے۔ فی زمانہ minutes takerنہیں رہے ہیں۔ اس لیے اب باقاعدہ مورخ بھی نہیں رہے ہیں۔ صرف داستان گوئی رہ گئی ہے۔
کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ ضیا محی الدین کی خود نوشت میری نظر سے گزری تھی۔ کامیاب اداکاری وہی ہے جو اسکرپٹ کے مطابق کی جاتی ہے۔ بعض اوقات ناظرین کے دبائو پر اسکرپٹ تبدیل بھی کیا جاتا ہے۔ ٹاک شوز میں ایک ادارہ ٹرانسمیشن ہوتا ہے۔ بعض اوقات بہت عمدہ سوالات ٹرانسمیشن سے وصول ہوتے ہیں۔ اب یہ نہ پوچھئے گا کہ ٹرانسمیشن والوں کو کہاں سے سوالات ملتے ہیں۔ یہ ایک سلسلہ ہے۔ صدقۂ جاریہ ہے۔ بعض اوقات ٹرانسمیشن والے زیادہ حاوی ہو جاتے ہیں۔ کنٹرول ٹاور میں بیٹھوں کو زیادہ علم ہوتا ہے کہ پرواز ہموار ہے یا کچھ غیر متوازن ہے۔ اس لیے ان کی بات مان لینی چاہئے۔ مجموعی طور پر یہ احساس شدید ہے کہ کہیں ہم اپنے اداکاروں کی صلاحیتیں ضائع تو نہیں کر رہے ہیں۔