یہاں ہر کام اچانک!

ایس اے زاہد
20 ستمبر ، 2024
وطن عزیز میں اچانک ایسا کچھ ہو جاتا ہے کہ دیکھنے اور سننے والے حیران رہ جاتے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی جو ہر وقت ایک پیج پر ہونے کے راگ فخریہ انداز میں الاپتے تھے اچانک پیج سے ہٹا دیئے گئے۔ اچانک ان کے خلاف نہ صرف عدم اعتماد کی تحریک پیش کر دی گئی بلکہ اس کو کامیاب بھی کروایا گیا اور یوں ان کو اچانک اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔ جن کے ساتھ وہ ایک پیج پر ہونے کا دعویٰ کرتے تھے،جن کو وہ قوم کا باپ بتاتے تھے اچانک ان سب کو نازیبا الفاظ سے نوازنے لگے۔ ان کو اپنی گرفتاری کا یقین نہیں تھا لیکن وہ اچانک گرفتار ہو گئے اور ان کے اکثر ساتھی گرفتاری کے خوف سے روپوش ہو گئے۔ 9؍مئی کے واقعات بھی اچانک رونما ہوئے۔ کسی بھی جگہ بلوائی مظاہرین کو روکنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ مظاہرین اچانک نکل کر مخصوص مقامات پر حملہ آور ہونے کے لئے پہنچے یا یہ سب کچھ منصوبہ بندی کے تحت ہوا۔ یہ بھی معلوم نہیں کہ ایسے واقعات کے بارے میں پیشگی اطلاع دینے والوں نے ذمہ داری کیوں پوری نہیں کی؟ یہ وہ تمام سوالات ہیںکہ ڈیڑھ سال گزرنے کے باوجود تشنہ ہیں۔
ایک ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل کو گرفتار کیا گیا، اس بارے میں ملفوف طریقے سے بتایا جاتا ہے کہ شاید وہ 9؍ مئی اور دیگر کئی معاملات میں وعدہ معاف گواہ بن سکتے ہیں وہ فوج کی تحویل میں ہیں۔ کیا معلوم اس بارے میں اچانک کوئی خبر آ جائے۔ لیکن ابھی تک بظاہر 9؍ مئی میں ملوث افراد میں سے کسی کو سزا تو نہیں البتہ اکثر کو عہدے ملے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی اور ان کی جماعت کے رہنما سال رواں کے ماہ اکتوبر، نومبر کو اپنے لئے نیک فال سمجھتے ہیں۔ حالانکہ برا وقت تو اب بھی ان پر نہیں ہے۔ بہرحال مبینہ طور پر بانی پی ٹی آئی کے مذاکرات چل رہے ہیں اور جو نظر آ رہا ہے، کوئی بعید نہیں کہ کسی وقت اچانک ان کی رہائی کی خبر آجائے۔ وزیر اعلیٰ کے پی علی امین گنڈا پور کے بارے میں تو اب کسی کو شک نہیں ہے کہ وہ بانی پی ٹی آئی اور ’’دوسرے فریق‘‘ کے درمیان رابطہ کار کا کردارا دا کر رہے ہیں لیکن یہ معلوم نہیں کہ ان کو کوئی استعمال کر رہا ہے یا یہ کسی کی خیر خواہی ہے۔ اعظم سواتی کو رات تین بجے اچانک کسی نے اڈیالہ جیل بھیجا اور ایسا کیا پیغام پہنچایا کہ بانی نے اپنی پارٹی کو جلسہ کرنے سے روک دیا۔ وزیر اعلیٰ کے پی نے سنگجانی جلسہ میں جس طرح کی تقریر کی یہ اگر ایم کیو ایم یا وقت زوال مسلم لیگ (ن) کا کوئی عہدیدار کرتا تو پتہ نہیں وہ اس وقت کہاں ہوتا۔ یہاں ہر کام اچانک ہو جاتا ہے،پتہ نہیں اس اچانک کے پیچھے کون ہے۔
وزیر اعلیٰ گنڈا پور نے دوسرے دن پشاور میں اعلان کیا کہ وہ بطور وزیر اعلیٰ افغان حکومت سے اپنی پالیسی کے مطابق تعلقات کی کوشش کریں گے اور پتہ نہیں کسی کو یہ بھی کہا کہ تم اپنی پالیسی اپنے پاس رکھو۔ واضح رہے کہ انہوں نے یہ اعلان بھی اچانک ہی کیا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سے اگلے دن انہوں نے پشاور میں افغان قونصلر کو دیگر ساتھیوں کے ساتھ اپنے دفتر میں بلا کر بات چیت کی لیکن کسی نے کچھ بھی تو نہیں کہا۔ ابھی گزشتہ دن ایک اہم ترین جشن میلاد کی تقریب میں بھی اس قونصلر کو دعوت دی۔ جب قومی ترانہ شروع ہونے پر تمام شرکائے مجلس احتراماً کھڑے ہوئے تو وہی افغان قونصلر ڈھٹائی کے ساتھ دوسرے ساتھی سمیت اپنی نشست سے اٹھ کر کھڑا نہ ہوا۔ یہ نہ صرف سفارتی آداب کی سنگین خلاف ورزی ہے بلکہ یہ پاکستانی قوم اور ریاست کی توہین بھی ہے۔ لیکن شاباش ہے کہ دفتر خارجہ نے حسب معمول اس واقعے پر افغان سفیر اور حکومت سے احتجاج ریکارڈ کروا کے پاکستان کی عزت بحال کرائی۔ کسی ’’اور‘‘ طرف سے اس بارے میں مذکورہ قونصلر کو ملک بدر کرنے پر زور دیا گیا نہ کوئی ردعمل آیا۔ وزیر اعلیٰ کے پی اس موقع پر خود موجود تھے لیکن ابھی تک صوبائی حکومت نے اس بارے میں کوئی بیان تک جاری نہ کیا۔ یہ واقعہ بھی اچانک ہوا ۔
میاں نواز شریف کومبینہ طور پر ایک معاہدے کے تحت بطور نامزد وزیر اعظم مسلم لیگ ن کے بلوایا گیا وہ اچانک پاکستان پہنچے اور اپنے آپ کو مستقبل کا وزیر اعظم سمجھتے ہوئے میل ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا۔ پھر مختلف مواقع پر ملک میں جلسوں کا بھی اعلان ہوتا رہا لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا اور اچانک شہباز شریف وزیر اعظم جبکہ مریم نواز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب قراردے دی گئیں۔ اسکے بعد بھی نواز شریف نے جلسوں کی کوشش کی اس بارے میں پارٹی کے چند رہنمائوں سے ملاقاتیں بھی کیں لیکن پھر اچانک خاموش ہو گئے۔ اب عملاً وہ لاہور اور مری تک محدود ہیں۔ یہ سب کچھ بھی اچانک ہی ہوا۔
حکومت نے گزشتہ دنوں اچانک آئینی ترمیمی بل لانے کا اعلان کیا۔ اچانک مولانا فضل الرحمان شمع محفل ترمیمی بل بن گئے اور پی ٹی آئی ،جس کے بانی ان کو بدتہذیبی سے پکارا کرتے تھے ،نے بانی کی ہدایت پر مولانا کی قدم بوسی کے لئے ایسی حاضری دی کہ پھر ان کی چوکھٹ کو نہیں چھوڑا۔ مولانا بھی سب کچھ بھول کر ان کیساتھ شیر و شکر ہوئے۔ حکومتی وفود بھی درِ مولانا پر ابھی تک حاضری دے رہے ہیں لیکن اچانک اس میلے کو لوٹنے کیلئے بلاول بھٹو زرداری بھی پہنچ گئے۔ ذرائع کے مطابق باقی کو تو مولانا کہتے ہیں کہ تو جا میں آیا لیکن اصل کھچڑی بلاول بھٹو کیساتھ تیار کی جا رہی ہے اور اچانک بہت کچھ سامنے آجائیگا۔ یہ تو کرسی اور اپنے آپ کو بچانے کے لئے سیاستدانوں کی حسب روایت مشق ہے جو جاری ہے جس کا نتیجہ بھی اچانک آجائے گا جو سب کیلئے حیران کن ہو گا لیکن اس ’’اچانک‘‘ کے پیچھے کون ہے یہ شائد راز ہی رہے۔