آئینی عدالتیں

منصور آفاق
20 ستمبر ، 2024
بے شک پاکستان میں آئینی عدالت کے قیام کا مقصد کچھ غیر آئینی معاملات کا نفاذ ہے مگر ہمیں یہ دیکھنا تو چاہئے کہ آئینی عدالتیں ہیں کیا؟۔ آئین دراصل بنیادی حقوق ،سیاسی عمل اور قانون سازی پر مشتمل ہوتا ہےمگر ہر جگہ نہیں جیسے چین میں آئینی حقوق، قانونی عدالتوں میں نافذ نہیں ہو سکتے۔ آئین کے نفاذ کے عمل میں پیدا ہونے والے مسائل پر غور و فکرکرنے کا کام آئینی عدالتیں کرتی ہیں ۔جنہیں دنیا میں 'آئینی ٹریبونل یا 'آئینی کونسل بھی کہا جاتا ہے۔ یہ خود مختار ادارہ قانون سازی کا دفاع اور نظر ثانی کرتا ہے اور اس کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے مگر کسی اختلاف کی صورت میں اس کے کسی فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے ۔اس قسم کی عدالتیں دنیا کے تقریباً 85ممالک میں ہیں۔ اس کا آغاز آسٹریا سے ہوا۔یہ آئینی عدالتیں آئین سازی یا آئینی اصلاحات کی بہتری کیلئے وجود میں لائی گئیں اور یہ پارلیمنٹ کا ہی ایک حصہ ہوتی ہیں ۔کسی حد تک یہ قومی اسمبلی کی اُس آئینی کمیٹی جیسی ہوتی ہیں جو قانون سازی سے پہلے جائزہ لیتی ہے کہ یہ بل اسمبلی میں پیش کرنے کے قابل ہے یا نہیں ۔ آئینی عدالتیں فوجی آمریت یا مطلق العنان حکومت کے دور کے بعد آئین سازی میں بنیادی حقوق کی محافظ کی حیثیت سے سامنے آئیں ۔ آئینی عدالت کے قیام کا بنیادی محرک ایک مضبوط اور خصوصی عدالت ہے جو نظرثانی بھی کرے اور اس کا نفاذ بھی ۔ آئینی عدالتوں کے چار کام ہوتے ہیں ۔ آئین کا مسودہ تیار کرنے کا دائرہ اختیار یعنی آئین سازی کے عمل میں پیدا ہونے والے مسائل کا فیصلہ کرنا اور آئینی ترامیم کی آئینی حیثیت کا جائزہ لینا کہ یہ ترامیم ہو سکتی ہیں یا نہیں ۔ قوانین کی آئینی حیثیت کا جائزہ لینا اور سیاسی جماعتوں اور انتخابات کو کنٹرول کرنا، یعنی وہ کام جو الیکشن کمیشن کرتا ہے ۔یہ ممکن نہیں کہ الیکشن کمیشن بھی ہو اور آئینی عدالت یا آئینی ٹربیول بھی ہو۔اگر ہم دونوں برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو پھر بہت سے اختیار الیکشن کمیشن سے لے کر آئینی عدالت کو دینے پڑیں گے ۔
مثال کے طور پر سیاسی جماعتوں کی تحلیل یا انضمام کا فیصلہ آئینی عدالت کرتی ہے۔ آئینی عدالت کے ججوں کے انتخاب کیلئے مقننہ سے بیلٹ کے ذریعے منظوری درکار ہوتی ہے۔ ایگزیکٹو کی طرف سے تقرری اس لئے مناسب نہیں سمجھی جاتی کہ اس طرح وہ آئینی عدالت کو کنٹرول کر سکتا ہے۔ اہلیت کے بارے میں جو قواعد ہیں وہ کہتے ہیں کہ کیرئیر جج یہاں تعینات نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے انتخاب میں صرف بیورو کریٹس، سیاسی شخصیات یا قانونی اسکالر شریک ہو سکتے ہیں۔ آئینی عدالت میں مقدمات درج کرانے کاطریقہ بھی وہی ہے جو ہمارے یہاں الیکشن کمیشن کے پاس ہےاور وہ تمام مقدمات جو الیکشن کمیشن سنتا ہے وہ آئینی عدالت بھی سن سکتی ہے۔ یعنی پاکستان میں الیکشن کمیشن کی حیثیت آئینی عدالت کی ہے اگر اسے قانون سازی کے متعلق بھی کیس سننے کی اجازت دے دی جائے ۔
پاکستان کا آئین ایک مکمل آئین ہے اس میں کسی طرح کی آئینی عدالت کی کوئی گنجائش نہیں ۔سپریم کورٹ جیسے کہ اس کے نام سے ظاہر ہے ۔ ساری دنیا میں آخری عدالت کے طور کام کرتی ہے ۔آپ کوئی بھی کورٹ بنا لیں وہ سپریم کورٹ سے سپریم نہیں ہو سکتی ۔سپریم کورٹ تو وہ کورٹ ہے جو آئین کی روح کے منافی اگر قومی اسمبلی بھی کوئی قانون سازی کرنے لگے تو اسے بھی روک سکتی ہے۔
بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا فیصلہ اگر الیکشن کمیشن کرتا ہے تو اسے عدالتیں ختم کر سکتی ہیں ۔ موجودہ حکمرانوں کو ایک ایسی عدالت چاہئے جسے کسی عدالت میں چیلنج نہ کیا جا سکتا ہو۔ میرا خیال ہے اس کیلئے اتنی لمبی چوڑی قانون سازی کرنے کی بجائے بس اتنی ترمیم کرلیں کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ حرفِ آخر ہوگا اسے کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا مگر پھر وہی سوال کہ یہ ترمیم بھی آئین کے روح کے منافی ہو گی ،کیا سپریم کورٹ قومی اسمبلی کو کسی ایسی ترمیم کی اجازت دے گی ۔پھر بغیر کسی بحث کے رات کے اندھیروں میں کرائی جانے والی ترمیم کے خلاف کوئی بھی پارٹی سپریم کورٹ میں جا سکتی ہے ۔ابھی تو صرف مولانا فضل الرحمن نے انکار کیا ہے ۔کچھ دنوں میں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے کچھ ارکان بھی اس ترمیم کا حصہ بننے سے انکار کرنے والے ہیں ۔ میری اطلاعات کے مطابق دونوں پارٹیاں اندرون خانہ اس ترمیم کے حق میں نہیں ہیں اور کسی راستے کی تلاش میں ہیں کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔مگر اس مرتبہ لگتا نہیں کہ یہ لوگ درمیان سے گزر سکیں ۔دونوں پارٹیوں کے سامنے جو سب سے بڑا سلگتا ہوا سوال ہے وہ یہ کہ عوام میں اپنی ساکھ کیسے بحال کریں ۔اس وقت ان دونوں پارٹیوں کے بہت سے اہم لوگوں کے دل اڈیالہ جیل کے قیدی کے ساتھ مل کر دھڑک رہے ہیں مگر انہیں کوئی راستہ نہیں دکھائی دے رہا کیونکہ فارم سینتالیس ایک ایسی ڈھلوان کا نام ہے جس پر پائوں رکھنے کے بعد سنبھلنا بہت مشکل بلکہ نا ممکن نظر آتا ہے۔