آئینی ترامیم کا معاملہ حکومت کے گلے پڑگیا ،تجزیہ کار

20 ستمبر ، 2024

کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیوکے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتےہوئے سیکرٹری اطلاعات پاکستان پیپلز پارٹی شازیہ مری نے کہا کہ چھبیسویں آئینی ترمیم کسی چیلنج سے کم نہیں ہے ا س پر مزید ڈائیلاگ ہونا اچھی بات ہے،سینئر صحافی و تجزیہ کار مجیب الرحمٰن شامی نے کہا کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی اتنے عرصہ بعد اچانک اتنی شدت کے ساتھ آئینی عدالت کی تجویز پیش کررہی ہیں اس پر انگلیاں تو اٹھیں گی، اچھی نیت کے باوجود دستور میں یکطرفہ اور من مانی ترمیمات نہیں کی جاسکتی ہیں،میزبان محمد جنید نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ آئینی ترامیم کا معاملہ حکومت کے گلے پڑگیا ہے، مسلم لیگ ن اس پارلیمانی اور سیاسی ناکامی پر شرمندہ ہونے کے ساتھ اب بھی دو تہائی اکثریت کیلئے کوششیں کررہی ہے،سینئر صحافی و تجزیہ کار عاصمہ شیرازی نے کہا کہ آئینی ترامیم پیش کرنے میں ناکامی ن لیگی حکومت کیلئے بہت بڑی ہزیمت اور شرمندگی ہے، سیکرٹری اطلاعات پاکستان پیپلز پارٹی شازیہ مری نے کہا کہ آئینی ترمیم بہت بڑا مرحلہ ہوتا ہے اس پر جتنا ممکن ہو اتفاق رائے پیدا کرنا چاہئے، 1973ء کا آئین اور اٹھارہویں ترمیم کا متفقہ ہونا بہت بڑی کامیابی تھی، چھبیسویں آئینی ترمیم کسی چیلنج سے کم نہیں ہے ا س پر مزید ڈائیلاگ ہونا اچھی بات ہے، اتنا بڑا فیصلہ کرنا ہو تو بہت ساری گفتگو بھی ناکافی ہوتی ہے، مذاکرات کے نتیجے میں اتفاق رائے پیدا ہونا بہت اچھی بات ہوگی، پیپلز پارٹی نے 2006ء میں میثاق جمہوریت میں آئینی عدالت کے قیام کا مطالبہ کیا تھا، میثاق جمہوریت کی 90فیصد شقوں پر عملدرآمد کرچکے ہیں باقی دس فیصد پر عمل کرنا ہے۔ شازیہ مری کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ پیپلز پارٹی کا پرانا ورکنگ ریلیشن شپ رہا ہے، مولانا صاحب سیاسی حقیقت ہیں ان کا احترام کرتے ہیں، ہم نے حکومت کو ہر مرحلہ پر تجویز دی کہ تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیں، حکومت کو اپوزیشن سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو آن بورڈ لینے کی تجویز دی، عدالتی نظام کو ٹھیک کرنے کے حوالے سے سب متفق ہیں۔ شازیہ مری نے کہا کہ کامران مرتضیٰ کی بات پر ہمیں تشویش ہوئی،مرتضیٰ وہاب نے کامران مرتضیٰ سے بات کر کے وضاحت کرنے کی کوشش کی، رابطہ نہ ہونے پر مرتضیٰ وہاب نے خود اس حوالے سے وضاحت دی، ہم سمجھتے ہیں کامران مرتضیٰ کا اس طرح کا بیان دینا نامناسب عمل ہے، کامران مرتضیٰ کو کوئی کنفیوژن تھا تو ہم سے بات کرنی چاہئے تھی۔شازیہ مری کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اصلاحات کے اس ایجنڈے پر یقین رکھتی ہے جس پر شہید محترمہ نے دستخط کیے، ہم نے اتنی حکومتیں نہیں دیکھیں جتنی اپوزیشن دیکھی ہے، بلاول بھٹو زرداری حکومت کے ساتھ ہیں، آئینی ترمیم پر حکومت کو کوئی شرمندگی یا ناکامی نہیں ہوئی، حکومت جتنی جلدی ترمیم چاہتی ہے اس میں کامیاب نہیں ہوئی، آئینی ترمیم کیلئے وقت سے زیادہ اتفاق رائے پیدا ہونا ضروری ہے۔ شازیہ مری نے کہا کہ مخصوص نشستوں کے حوالے سے اسپیکر نے جو خط لکھا یہ ان کی ذمہ داری ہے، ہم سب کی نیت انصاف کے نظام کو مضبوط کرنے کی ہونی چاہئے، بلاول بھٹو نے بتایا حکومت کی کچھ تجاویز پر اتفاق نہیں کرتا۔سینئر صحافی و تجزیہ کار مجیب الرحمٰن شامی نے کہا کہ وفاقی آئینی عدالت کا تصور پہلی مرتبہ 2006ء میں میثاق جمہوریت میں سامنے آیا تھا، ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے 2006ء کے بعد سے آج تک کبھی آئینی عدالت کا نام نہیں لیا، اٹھارہویں ترمیم کے وقت آئینی عدالت کے قیام کا موقع تھا مگر اتفاق نہیں ہوسکا، ن لیگ اور پیپلز پارٹی اتنے عرصہ بعد اچانک اتنی شدت کے ساتھ آئینی عدالت کی تجویز پیش کررہی ہیں اس پر انگلیاں تو اٹھیں گی، اچھی نیت کے باوجود دستور میں یکطرفہ اور من مانی ترمیمات نہیں کی جاسکتی ہیں، پاکستان اس وقت جن حالات سے گزر رہا ہے اسے کسی دستوری الجھن میں نہیں ڈالا جاسکتا، حالات کا تقاضا ہے آئینی ترامیم پر وسیع اتفاق رائے پیدا کیا جائے،آئینی ترامیم پر مولانا فضل الرحمٰن نے درست موقف اختیار کیا جسے پاکستان بھر میں سراہا گیا، ن لیگ میں بھی آئینی ترامیم پر یکسوئی نہیں تھی۔ سینئر صحافی و تجزیہ کار عاصمہ شیرازی نے کہا کہ آئینی ترامیم پیش کرنے میں ناکامی ن لیگی حکومت کیلئے بہت بڑی ہزیمت اور شرمندگی ہے، ایک ایسے ڈرافٹ کو جسے کسی نے دیکھا نہیں تھا اسے نمبرز گیم دیکھے بغیر پارلیمنٹ کا اجلاس بلانا بڑی ہزیمت ہے، آئینی پیکیج میں ایسی بہت سی ترامیم تھیں جن سے پاکستان کے آئین کی ہیئت بدل جاتی، آئینی ترامیم کا مسودہ پیپلز پارٹی کے پاس گیا تب ہی اختلافات نے جنم لے لیا تھا، جے یو آئی اور پیپلز پارٹی نہیں چاہتی تھی کہ آئینی ترامیم اسی شکل میں پارلیمنٹ کے پاس چلی جائیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومتی بنچز پر بھی کسی نے آئینی ترامیم کا مسودہ نہیں دیکھا، یہاں مولانا فضل الرحمٰن کا کردار سراہنا بہت ضروری ہے ورنہ آئینی ترامیم سے بچنے کیلئے وہ کندھا نہیں ملتا جس کی پیپلز پارٹی کوشش کررہی تھی، ن لیگ کے کچھ لوگ بھی چاہتے تھے کہ یہ آئینی ترامیم نہ ہوں، ن لیگ کی حکومت میں اس طرح کی قانون سازی پارلیمنٹ میں لانا نواز شریف کی سیاست کے اوپر بڑا سوالیہ نشان ہے۔نمائندہ جیو نیوز شبیر ڈار نے کہا کہ 190 ملین پاؤنڈز کیس مسلسل دس ماہ سے چل رہا ہے، عدالت نے 190ملین پاؤنڈز کیس میں عمران خان کودفاع کا بھرپور موقع فراہم کیا ہے۔میزبان محمد جنید نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ آئینی ترامیم کا معاملہ حکومت کے گلے پڑگیا ہے، مسلم لیگ ن اس پارلیمانی اور سیاسی ناکامی پر شرمندہ ہونے کے ساتھ اب بھی دو تہائی اکثریت کیلئے کوششیں کررہی ہے، اس حوالے سے ایک اور سیاسی چال چلی گئی ہے جس کے ذریعہ مخصوص نشستوں کے فیصلے پر عملدرآمد رکوانے کی حکمت عملی کے طور پر اسپیکر قومی اسمبلی نے الیکشن کمیشن کو خط لکھ دیا ہے جس میں الیکشن ایکٹ میں کی گئی حالیہ ترمیم کا حوالہ دے کر کہا گیا ہے کہ ایک دفعہ جن آزاد اراکین اسمبلی نے جس پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی وہ دوبارہ پارٹی تبدیل نہیں کرسکتے اس لیے الیکشن کمیشن اس قانون کو لاگو کیے بغیر نشستیں الاٹ نہیں کرسکتا۔ محمد جنید نے تجزیے میں مزید کہا کہ پیپلز پارٹی سے جے یو آئی ایک اہم دعویٰ کررہی ہے، کل ہمارے پروگرام میں جے یو آئی کے سینیٹر کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ ابتدائی دستاویز ہمیں ووٹنگ سے پہلے آدھی رات کو دی گئی تھی، تھوڑی دیر بلاول بھٹو ہمارے پاس آئے تو ہم نے ان سے کہا کہ آپ نے اس سے کیسے اتفاق کرلیا؟ تو بلاول نے جواب دیا کہ ہمارے بھی تحفظات تھے مگر مجبوری ہے، ہم نے کہا کہ ہماری کوئی مجبوری نہیں ہے۔ محمد جنید نے بتایا کہ کامران مرتضیٰ کے اس دعوے پر بلاول بھٹو نے انہیں جواب دیا ہے کہ یہ کوئی مس کمیونیکیشن ہوئی ہے، نہ کوئی مجبوری تھی نہ کوئی ڈر تھا نہ کوئی خوف تھا، نہ ہم خوف، نہ مجبوری کی سیاست کرتے ہیں۔