فیصلے کرنے کی تنخواہ ملتی ہے ،سپریم کورٹ کام کرنا بند نہیں کرسکتا جسٹس منیب کی سماعت سے معذرت پر چیف جسٹس کے ریمارکس

01 اکتوبر ، 2024

اسلام آباد(جنگ نیوز) سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منیب اختر نے آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیس میں تشکیل کردہ لارجر بنچ میں شمولیت سے انکار کر دیا، عدالت عظمیٰ نے جسٹس منیب اختر کے پیش نہ ہونے پر سماعت آج تک ملتوی کر دی۔جبکہ چیف جسٹس پاکستان نے جسٹس منیب اختر کے ایک کی سماعت کرنے سے معذرت پر ریمارکس دیےکہ سپریم کورٹ کام کرنا بند نہیں کرسکتی، ہمیں یہاں صرف مقدمات کے فیصلے کرنے کی تنخواہ ملتی ہے سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منیب اختر کی جانب سے رجسٹرار سپریم کورٹ کو لکھا گیا خط منظر عام پر آگیا۔ جسٹس منیب اختر نے اپنے خط میں لکھا کہ 63 اے نظرثانی کیس 5 رکنی لارجر بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا گیا، 5 رکنی بینچ 23 ستمبر کی ججز کمیٹی میں ترمیمی آرڈیننس کے تحت تشکیل دیا گیا، ترمیمی آرڈیننس کے تحت بینچز کی تشکیل پر سینئر جج نے خط میں آئینی سوالات اٹھائے ہیں۔ جسٹس منیب نے خط میں کہا ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے جواب میں سینئر جج کو خط لکھا مگر انہوں نے اپنے خط میں آئینی سوالات کا جواب نہیں دیا، افسوس کی بات ہے چیف جسٹس کے خط پر ایک مہم چلی۔ سینئر جج نے اپنے خط میں مزید کہا کہ کمیٹی کی گزشتہ میٹنگ میں چیف جسٹس نے سینئر جج کی سربراہی میں بینچ کی رائے دی، چیف جسٹس اب بینچ کے سربراہ کیوں بنے، وجوہات سامنے نہیں آئیں،لارجر بینچ میں ایڈہاک جج جسٹس مظہرعالم میاں خیل کو شامل کیا گیا۔جسٹس منیب نے خط میں ذکر کیا کہ 19 جولائی کی ججز کمیٹی میں ایڈہاک ججز کے امور طے کرلیے تھے، یہ درست ہےکہ جسٹس مظہرعالم میاں خیل فیصلہ دینے والے بینچ کا حصہ تھے لیکن جسٹس مظہرعالم میاں خیل کی بینچ میں شمولیت آرٹیکل 182 کے خلاف ہے۔ جسٹس منیب نے خط میں کہا کہ موجودہ حالات میں 63 اے نظرثانی کی سماعت کےبینچ میں شمولیت سےمعذرت کرتا ہوں، میری معذرت کو کیس سننے سے انکار نہ سمجھا جائے، عدم دستیابی کے باعث بینچ میں شریک نہیں ہو سکتا، میرا خط 63 اےنظرثانی کیس کی فائل کا حصہ بنایا جائے اور بینچ میں عدم موجودگی کا غلط مطلب نہ سمجھا جائے چیف جسٹس پاکستان نے جسٹس منیب اختر کے ایک کی سماعت کرنے سے معذرت پر ریمارکس دیےکہ سپریم کورٹ کام کرنا بند نہیں کرسکتی، ہمیں یہاں صرف مقدمات کے فیصلے کرنے کی تنخواہ ملتی ہے۔ سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے تشریح کے فیصلے پر نظرثانی اپیلوں پر سماعت میں جسٹس منیب کے نہ آنے پر چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس منیب اختر سے درخواست کریں گے کہ وہ بینچ کا حصہ بنیں۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ نظرثانی میں ایک اہم نکتہ ہے جو عمومی طور پر گورننس کو متاثر کررہا ہے، جسٹس منیب نے آج بھی مقدمات کی سماعت کی اور وہ ٹی روم میں بھی موجود تھے۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ایک مرتبہ بینچ بن جائے تو تمام کارروائی عوام کے سامنے ہونا چاہیے، جسٹس منیب اختر اگر نہ آئے تو کل دوسرے دستیاب جج ان کی جگہ شامل کیے جائیں گے۔ جسٹس قاضی فائز کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کےقانون کی یہ نیت نہیں ہےکہ آئینی حقوق کے فیصلے نہ ہوں اورسپریم کورٹ اسٹینڈسٹل ہوجائے، اگر کوئی رکن شریک نہیں ہونا چاہتا تو یہ ان کی مرضی ہے، سپریم کورٹ کام کرنا بند نہیں کرسکتی، ہمیں یہاں صرف مقدمات کے فیصلے کرنے کی تنخواہ ملتی ہے۔