پاکستان کو بڑی مشکل سے آئی ایم ایف پروگرام ملا۔ اس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر سمیت سب کی کوششیں شامل ہیں۔ یہ پاکستان کیلئے بہت ضروری تھا۔ اس پروگرام کے ملنے سے حکومتی مشکلات میں کمی آئے گی اور حکومت کے لئے آسانیاں پیدا ہونگی لیکن عوام کی مشکلات میں کمی ہونے کی نہ کوئی امید کی جاسکتی ہے نہ ہی آسانیاں پیدا ہونے کا کوئی امکان نظر آتا ہے۔ عام طور پرجن ممالک کوآئی ایم ایف سے مطلوبہ قرض مل جاتا ہے تو بیرونی سرمایہ کاری بھی آتی ہے لیکن پاکستان کی غیر یقینی صورتحال کے باعث آئی ایم ایف سےقرضہ ملنے سے بھی بیرونی سرمایہ کاری کے امکانات یقینی نہیں ہیں۔ اس قرض کا فائدہ حکومت کو ہی ہوگا۔ اس سے زرمبادلہ کے ذخائر میں کچھ اضافہ ہوگا جس سے بعض دیگر بیرونی مالیاتی اداروں سے مزید قرض مل سکتا ہے،واجب الادا اقساط کی ادائیگیاں ہوسکتی ہیں۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور فنڈزوپنشن ادا ہوسکتے ہیں۔ نئی گاڑیاں خریدنے کی حکومتی خواہشیں پوری ہوسکتی ہیں۔ حکومتی اللے تللوں کے علاوہ اہم ترین کام آئی پی پیز کو ادائیگیاں ہوسکتی ہیں اور من پسند اراکین پارلیمان وسینٹ کو فنڈز دئیے جاسکتے ہیں۔ اب فیصلے بھی حکمرانوں نے ہی کرنے ہیں کہ ان میں سے کون سے کا م پہلے کرنے ہیں اور کون سے بعد میں کرنے ہیں۔ عوام کے کرنے کے کام یہ ہیں کہ ایسے تمام قرضوں کا بوجھ اٹھانا ہے۔ مہنگائی ، بیروزگاری، دہشت گردی اور بدامنی کے ساتھ ساتھ اپنی جان ومال اور عزتوں کی حفاظت خود کرنی ہے اور یہ سب کچھ برداشت کرکے خاموشی کے ساتھ زندگی کے دن پورے کرنے ہیں۔ اگر آئی ایم ایف یا کہیں اور سے قرضہ ملتا ہے تو اس پر خوشیاں منانا حکمرانوں اور دیگر اشرافیہ کا حق ہے۔عوام کو بیگانی شادی میں نہ دیوانہ ہونا چاہئے نہ یہ عوام کاحق ہے کیونکہ عوام کو اس سے کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ عوام پر بس یہ احسان بہت ہے کہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچالیا گیا ورنہ یہاں مہنگائی ہوتی،دہشت گردی ہوتی، بدامنی ہوتی، ملک معاشی بحران کا شکار ہوتا۔
جہاں تک آئی پی پیز کا تعلق ہے ان کے’’ پانچوں گھی اور سر کڑاہی میں ‘‘کے مصداق مزے ہی مزے ہیں اور دیکھنے والی بات یہ ہے کہ ان میں کئی آئی پی پیز حکمرانوں اور اشرافیہ کی ملکیت ہیں۔ مبینہ طور پر صرف ماہ اگست میں اشرافیہ کے پاور پلانٹس میں20ارب روپے تقسیم کئے گئے ہیں۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ نواز شریف دور حکومت سے کچھ پہلے بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں بے تحاشا اضافہ کیا گیا۔ نواز شریف کے برسر اقتدار آتے ہی جوپہلا کام کیا گیا وہ ان پاور پلانٹس کو ادائیگیاں کی گئیں اور پھر لوڈ شیڈنگ میں کمی آئی جس پرن لیگ فخر کرتی اور اس اقدام کی مشہوری وتعریف کرتی رہی ۔ دراصل یہ اشرافیہ کے ذاتی فائدے اور عوام کا خون نچوڑنے کا پروگرام ہے جو آج بھی جاری ہے۔ موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف کی سخت شرائط کی آڑ میں بجلی کے بلوں کی صورت میں اشرافیہ کے مفادات کا خیال رکھتے ہوئے عوام کا باقی ماندہ خون بھی نچوڑ لیا ہے۔ اگر بجلی چوری روکنے اور بجلی کے بلوں کی ریکوری کے لئے فوجی جوانوں کو بجلی کے محکمہ کے اہلکاروں کے ساتھ بھیجا جاسکتا ہے توآئی پی پیز کے معاملے پر خاموشی چہ معنی دارد؟ کیا سب کی نظروں میں عام آدمی ہی قصور وار اور قربانی کا بکرا ہے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہوا کہ پاکستان صرف اشرافیہ کے لئے بنایا گیا تھا یااس عام آدمی کابھی اس میں حصہ ہے جس کی پاکستان بنتے وقت جان ومال اور عزتیں قربان ہوئی تھیں۔
پاکستان قدرت کا عطیہ ہے لیکن افسوس کہ نہ ہم اس نکتے کو سمجھ سکے اور نہ ہی اس نعمت کی قدر کی۔ اشرافیہ میں حصول اقتدار اور بندر بانٹ کی جنگ نے ملک کواس حال تک پہنچایا ۔ زرعی اور قدرتی وسائل سے مالا مال ملک قرضوں اور امداد پر چل رہا ہے۔ نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ انصاف دینے والے آپس میں منقسم ہیں۔ انصاف کا حصول اتنا مہنگا اور طویل عمل ہے کہ عام آدمی کے بس کی بات ہی نہیں رہی ہے، انصاف بھی اشرافیہ ہی کے لئے آسان اور ہمہ وقت دستیاب ہے۔ بدامنی کا یہ عالم ہے کہ عام آدمی کی نہ عزت محفوظ ہے نہ جان ومال محفوظ ہیں۔ بااثر ہونا اس ملک میں رہنے کے لئے شرط اولین ہے۔ دوسری طرف دہشت گردی میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے۔ نہ دفاعی اداروں کے افسر ان اور جوان محفوظ ہیں نہ عام آدمی۔ کوئی شک نہیں کہ پاک فوج جانوں کی قربانیاں دے رہی ہے اور ساتھ ہی دہشت گرد خوارج کوبھی واصل جہنم کررہی ہے لیکن پھر بھی یہ سلسلہ ختم نہیں ہورہا ہے۔ غور کرناچاہیے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے اورآخر کب تک یہ جاری رہے گا۔ بلوچستان اور کے پی پاکستان ہی کے اہم حصے ہیں لیکن ان دونوں صوبوں میں شام ہونے کے بعد باہر نکلنا جان پر کھیلنے کے مترادف ہے۔ کچے کے چند سوڈاکوؤں نے لوگوں کاجینا محال کیا ہوا ہے ان کیخلاف آپریشنوں کے کھیل پر بے تحاشا پیسہ خرچ ہو رہا ہے اور کئی سال سے یہ کھیل اور ان کا دھندہ جاری ہے۔ تاوان نہ دینے والوں کووہ قتل بھی کردیتے ہیں اسوقت بھی معلوم نہیںکتنے لوگ انکے قبضے میں ہیں۔ کیا یہ ڈاکو دہشت گرد نہیں ہیں۔ انکو بھاری ہتھیار اور گولہ بارود مہیا کرنیوالے سہولت کار اسی صوبے میں نہیں رہتے۔ ان ڈاکوؤں کیخلاف جو دراصل دہشت گردہیں اور انکے سہولت کاروں کیخلاف فوجی آپریشن میں کیا امر مانع ہے۔9مئی کے شرپسندوں، انکے ماسٹر مائنڈ اور سہولت کاروں کوابھی تک سخت اور عبرتناک سزائیں کیوں نہیں ملیں۔ یہ قوم کے وہ سنجیدہ سوالات ہیں جن کے جوابات کی وہ منتظر بھی ہے اور حقدار بھی ہے۔ کیا یہ معاملے بھی پالیسی اور مصلحت کا شکار ہوجائیں گے۔
مزید خبریں
-
صدر ٹرمپ نے حد کر دی، کبھی وہ غزہ کی ملکیت لینے کے دعوے کرتے ہیں تو کبھی اُردن کے شاہ عبداللہ کو باتوں میں...
-
میں اس وقت ایف ایس سی کا طالب علم تھا جب ریڈیو پاکستان عروج پا چکا تھا جبکہ پی ٹی وی کوئٹہ سینٹر عروج پانے کو...
-
شمالی افریقہ کے اہم ملک لیبیا کے ساحلوں کے قریب ایک اور بحری کشتی ڈوبنے کے المناک سانحے میں کم از کم سولہ...
-
چند دن پرانی بات ہے، ایک ضروری کام کے لئے شہر جانے کا اتفاق ہوا۔کام نمٹانے کے بعد حسب معمول بشکو ٹی اسٹال پہنچ...
-
جب 2022 میں پاکستان شدید سیلاب کی زد میں آیا، تو نہ صرف ملک کا ایک تہائی حصہ پانی میں ڈوب گیا بلکہ ایک رات میں...
-
ترک صدر رجب طیب اردوان کی پاکستان آمد پر ان کا پرتپاک خیر مقدم خوش آئند امر ہے ۔پاکستان اور ترکیہ کے تعلقات...
-
کیا کریں؟ عاشقی صبر طلب ہے اور تمنا بےتاب، اوپر سے ’آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک‘...بات ایک عمر ہی تک ہو، تو...
-
قانون میں ترمیم کی گئی ہےکہ’’غلط اور جھوٹی خبر سے متاثرہ شخص کو اتھارٹی کو خبر ہٹانے یا یا بلاک کرنے کیلئے...