انصار عباسی
اسلام آباد .......: اعلیٰ عدلیہ کے تمام جج صاحبان ججز کے ضابطہ اخلاق (کوڈ آف کنڈکٹ) کے پابند ہیں۔ حالیہ واقعات نے اس بات پر سوالات اٹھائے ہیں کہ ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد ہو رہا ہے یا نہیں۔ ججوں کا ضابطہ اخلاق میں یہ بات درج ہے کہ عدالتی کام میں، اور دوسرے ججز کے ساتھ تعلقات میں، ایک جج کو ہمیشہ اپنی عدالت کے ساتھ ہی تمام عدالتوں کے درمیان ہم آہنگی برقرار رکھنے اور انصاف کے ادارے کی سالمیت کیلئے کام کرنا چاہئے۔ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے ضابطہ اخلاق میں یہ بات بھی شامل ہے کہ کسی بھی جج کی رائے سے اختلاف چاہے مساوی ہو یا نچلی سطح کا، اختلاف ہمیشہ شائستگی اور تحمل سے ظاہر کرنا چاہئے۔ ججوں کے ضابطہ اخلاق میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ججز عوامی تنازعات میں الجھنے سے گریز کریں، خصوصاً سیاسی معاملات پر، چاہے پھر ان میں قانونی مسائل ہی شامل کیوں نہ ہوں۔ کوڈ آف کنڈکٹ میں کہا گیا ہے کہ چونکہ ایک جج عوام کے سامنے کام کرتا ہے، لہٰذا انہیں پہلے ہی کافی توجہ مل جاتی ہے اور انہیں مزید توجہ کا متلاشی نہیں ہونا چاہئے۔ بالخصوص، انہیں کسی بھی عوامی بحث میں حصہ نہیں لینا چاہئے، خصوصاً سیاسی موضوعات پر، چاہے ان میں قانونی سوالات ہی کیوں نہ ہوں۔ موجودہ عدالتی نظام میں یہ شکایات موجود ہیں کہ بعض اعلیٰ ججز مقدمات کا جلد فیصلہ کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے۔ تاہم، کوڈ آف کنڈکٹ میں ججز سےتوقع کی گئی ہے کہ وہ مقدمات کے جلد فیصلے کیلئے تمام ضروری اقدامات کریں۔ ججوں کو مقدمات میں تاخیر کی کسی بھی کوشش کو روکنا چاہئے اور فوری، اچھی طرح سے لکھے گئے فیصلے سنا کر ملوث افراد پر بوجھ کم کرنے کیلئے سخت محنت کرنا چاہئے۔ ایک جج جو اس فرض کو نظر انداز کرتا ہے یا اس کی پرواہ نہیں کرتا ہے وہ اپنے کام سے وفادار نہیں ہے، جو ایک سنگین غلطی ہے۔ ججز کے ضابطہ اخلاق میں کہا گیا ہے کہ جج کے دل میں خوفِ خدا ہونا چاہئے، قانون کی پیروی کرنا چاہئے، جج کو نظم و ضبط، ایماندار، فیصلے میں دانشمند، زیرک، صابر اور لالچ سے پاک ہونا چاہیے۔ انصاف کی فراہمی کے دوران، جج کو مضبوط ہونا چاہئے لیکن سخت نہیں، شائستہ لیکن کمزور نہیں، تنبیہ میں سنجیدہ، اور اپنے وعدوں کو پورا کرنا چاہے، ججز کو پرسکون، متوازن، اور مکمل طور پر غیر جانبدار رہنا چاہئے تاکہ وہ تمام معاملات میں درست فیصلے کر سکیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ جج کو اپنی نشست سے براجمان ہوتے اور نشست سے اُٹھنے کے وقت نظم و ضبط سے پُر ہونا چاہیے، ہمیشہ شائستہ اور عدالت کے وقار کو برقرار کے لیے محتاط رہنا چاہئے، تمام مدعیان اور وکلاء کے ساتھ یکساں سلوک کرنا چاہئے، ضابطہ اخلاق ججوں کو یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ توازن ہی آسمان و زمین کو اپنی جگہ پر برقرار رکھتا ہے اور توازن برقرار رکھنے سے ناانصافی اور غیر منصفانہ سلوک دور ہوتا ہے۔ یہ جج کا فرض ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ انصاف تمام معاملات میں توازن موجود ہو۔ حال ہی میں سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے کچھ ججز ایسے تنازعات میں ملوث پائے گئے ہیں ۔