اسلام آباد(رپورٹ،رانامسعود حسین)سپریم کورٹ کورٹ کے دوسرے سینئر ترین جج مسٹرجسٹس منیب اختر نے سپریم کورٹ( پریکٹس اینڈ پروسیجر )کمیٹی کی تشکیل نو کے معاملہ پر اختلافات کی بناء پر عدالت میں’آئین کے آرٹیکل 63 اے‘ کی تشریح سے متعلق مقدمہ کے مرکزی فیصلے کیخلاف دائر نظرثانی اپیلوں ʼ کی سماعت سے معذرت کرلی ہے،جس پرکیس کی مزید سماعت آج تک ملتوی کردی گئی ہے جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آبزرویشن دی ہے کہ سپریم کورٹ کام کرنا بند نہیں کرسکتی ہے، ہمیں یہاں مقدمات کے فیصلے کرنے کی ہی تنخواہ ملتی ہے، جسٹس منیب اختر سے بینچ میں شامل ہونے کی اپیل کرینگے، اگر نہ آئے تو سپریم کورٹ(پریکٹس اینڈ پروسیجر) کمیٹی انکی جگہ آج دوسرے دستیاب جج کو پانچ رکنی لارجر بنچ میں شامل کرلے گی،ایک مرتبہ بنچ بن جائے تو کارروائی عوام کے سامنے ہونی چاہئے، کوئی رکن بنچ میں شریک نہیں ہونا چاہتا تو یہ اسکی اپنی مرضی، جسٹس منیب اختر کی رائے کا بہت احترام ہے،لیکن ایک جج کا مقدمہ سننے سے انکار کمرہ عدالت میں ہی ہوتا ہے، ایسے کسی خط کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنانے کی اس سے قبل کوئی روایت نہیں ہے ،اسلئے جسٹس منیب کا یہ خط عدالتی فائل کا حصہ نہیں بن سکتا ہے، مناسب ہوتا کہ وہ اس بینچ میں آکر اپنی رائے دیتے، دریں اثناء جسٹس منیب اختر نے شام کو رجسٹرار سپریم کورٹ کو ایک اور خط لکھ دیاخط میں انہوں نے آج کی سماعت کے حکم نامے کوغیرقانونی قرار دیدیا، جسٹس منیب نے خط میں کہا کہ پانچ رکنی لارجربینچ نے کیس کی سماعت کرنی تھی، چار رکنی بینچ عدالت میں بیٹھ کرآرٹیکل63 اے سے متعلق نظرثانی کیس نہیں سن سکتا۔ تفصیلات کے مطابق پیر کے روز اراکین پارلیمنٹ و صوبائی اسمبلیز کے اپنی سیاسی پارٹی کی پالیسیوں سے انحراف سے متعلق آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے حوالے سے دائرصدارتی ریفرنس اورآئینی درخواستوں سے متعلق تقریبا ڈھائی سال قبل جاری کئے گئے فیصلے کیخلاف دائر کی گئی نظر ثانی کی اپیلوں کی سماعت شروع ہوئی توچیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی لاجر بینچ میں شامل، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل تو کمرہ عدالت میں پہنچ گئے تاہم جسٹس منیب اختر نہیں آئے اور چیف جسٹس کے دائیں جانب کی کرسی خالی رکھی گئی،چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل، عامر رحمان کو روسٹرم پر بلاکر مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس مقدمہ کی سماعت کیلئے یہ پانچ رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا گیا تھا،اس مقدمہ کا فیصلہ ماضی میں(چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل،جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل) پانچ رکنی لارجر بینچ نے جاری کیا تھا، نظر ثانی مقدمہ کی سماعت کیلئے بھی یہ پانچ رکنی بینچ تشکیل دیا گیاہے، لیکن جسٹس منیب اختر نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو ایک خط بھجوایا ہے۔انہوںنے خط کے مندر جات کا آخری حصہ پڑھا، جس میں جسٹس منیب اختر نے لکھاتھا کہ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) کمیٹی نے یہ بینچ تشکیل دیا ہے، لیکن میں اس کمیٹی کے تشکیل کردہ بینچ کا حصہ نہیں بن سکتا ہوں، میں بینچ میں بیٹھنے سے انکار نہیں کر رہا، بینچ میں شامل نہ ہونے کا غلط مطلب نہ لیا جائے اور میرے اس خط کو نظر ثانی کیس کے ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے، چیف جسٹس نے کہا کہ اگر چہ جسٹس منیب اختر نے اپنے خط میں لکھاہے کہ میں کیس سننے سے معذرت نہیں کر رہا ہوں، لیکن اگر ایک بار بینچ بن چکا ہو تو اس کا رکن جج کیس سننے سے معذرت صرف کھلی عدالت میں ہی کر سکتا ہے۔ انہوںنے کہا کہ جسٹس منیب اختر کی رائے کا بہت احترام ہے،لیکن ایک جج کا مقدمہ سننے سے انکار کمرہ عدالت میں ہی ہوتا ہے، ایسے کسی خط کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنانے کی اس سے قبل کوئی روایت نہیں ہے، اسلئے جسٹس منیب کا یہ خط عدالتی فائل کا حصہ نہیں بن سکتا ہے، مناسب ہوتا کہ وہ اس بینچ میں آکر اپنی رائے دیتے۔ چیف جسٹس نے کہا ہم جسٹس منیب اختر سے درخواست کرینگے کہ وہ بینچ میں بیٹھیں، ورنہ بینچ کی از سر نو تشکیل ہو گی،مجھے امید ہے کہ دوبارہ بینچ میں شامل ہو جائینگے، انہوںنے واضح کیا کہ وہ بینچ میں شامل ہوتے ہیں یا نہیں؟ دونوں صورتوں میںآج بھی مقدمہ کی سماعت ہو گی، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بھی عدالت کے موقف سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس منیب اختر کو بینچ میں بیٹھنا چاہیے تھا،سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے صدر شہزاد شوکت نے کہا کہ کیس کی سماعت ملتوی کر دینی چاہیے،بعد ازاں کیس کی مزید سماعت آج (بروز منگل)دن ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی گئی۔ قبل ازیں سپریم کورٹ کے جج مسٹر جسٹس منیب اختر نے رجسٹرار کے نام لکھے گئے خط میں آئین کے آرٹیکل 63اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کے فیصلے کے خلاف دائر نظر ثانی کی درخواستوں کی سماعت کیلئے قائم پانچ رکنی لارجر بینچ کی تشکیل کے عمل پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے اس مقدمہ کی سماعت سے معذوری ظاہر کردی ہے اور واضح کیا ہے کہ وہ بینچ سے الگ نہیں ہورہے ہیںاور انکی عدم دستیابی کو غلط معنی نہ دیے جائیں۔ پیر کے روزرجسٹرارکے نام لکھے گئے ایک صفحہ کے خط میں جسٹس منیب اختر نے وہ وجوہات بیان کی ہیں جن کی بنیاد پر اس مقدمہ کی سماعت سے معذرت کی گئی ہے،فاضل جج نے خط میں نہ صرف بینچ کی تشکیل کے طریقہ کار اور چیف جسٹس کے طرز عمل پر اعتراضات اٹھائے ہیں بلکہ ایڈہاک جج،جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل کو بھی پانچ رکنی بینچ میں شامل کرنے پر اعتراض کیا ہے، خط میں کہا گیا ہے کہ 23ستمبر 2024کو سپریم کورٹ( پریکٹس اینڈ پروسیجر) ترمیمی آرڈیننس کے تحت نو تشکیل شدہ کمیٹی نے نظر ثانی کیس کی سماعت کیلئے یہ لارجر بنچ تشکیل دیاہے،اس حوالے سے سنیئر ترین جج (جسٹس سید منصور علی شاہ )نے آرڈیننس سے متعلق انتہائی اہم آئینی سوالات اٹھائے تھے،لیکن چیف جسٹس نے انکے نوٹ کا جواب 25ستمبر کوایک خط کے ذریعے دیاہے، انتہائی افسوس کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ وہ خط اہم آئینی سوالات کا جواب دینے کی بجائے خط میں خود پسندی کی ایک مشق سے زیادہ کچھ نہیں ہے،یہ انتہائی بدقسمتی ہے کہ چیف جسٹس نے آئینی سوالات کا جواب دینے کی بجائے یہ راستہ اپنایاہے۔لہٰذا میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اسوقت مجھے نظر ثانی کیس کی سماعت کیلئے قائم بینچ کا حصہ نہیں بننا چاہیے اور بینچ کیلئے دستیابی سے معذرت کرنا چاہیے،یہ نوٹ کیا جاتا ہے کہ میں خود کو بینچ سے الگ نہیں کررہا اور میری موجودہ عدم دستیابی کی نہ تو غلط تشریح کی جائے اور نہ ہی غلط معنی دیا جائے،برائے مہربانی میرے اس نوٹ کو نظر ثانی درخواست کی فائل میں رکھ کر کیس کے ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔ دریں اثناء جسٹس منیب اختر نے پیر ہی کے روز رجسٹرار سپریم کورٹ کو لکھے گئے اپنے دوسرے خط میں کہا ہے کہ آج آرٹیکل 63اے کی تشریح سے متعلق مقدمہ کے مرکزی فیصلے کے خلاف نظر ثانی کیس پانچ رکنی بینچ کے سامنے سماعت کیلئے مقرر تھا،سمجھ سے بالاتر ہے ہ ایک 5 رکنی لارجر بینچ کو 4 رکنی بینچ میں کیسے تبدیل کردیا گیاہے اور چار ججوں نے بیٹھ کر کیسے حکمنامہ جاری کردیا ہے، فاضل جج نے قراردیاہے کہ آج کی سماعت کا حکم نامہ مجھے بھیجا گیا ہے ،جس میں میرا نام بھی لکھا ہواہے لیکن اسکے آگے دستخط نہیں ہیں ،انہوںنے کہاہے کہ بنچ میں شامل چار وںجج قابل احترام ہیں،لیکن آج کی کیس کی سماعت قانون اور قواعد کے مطابق نہیں ہے اور اس حوالے سے میں اپناموقف پہلے خط میں تفصیل سے بیان کر چکا ہوں، تاہم آج کی سماعت کے حکمنامہ پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرانا چاہتا ہوں،آج کی سماعت کا حکمنامہ جوڈیشل آرڈر نہیں ہے، اس لئے اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے ،میںآپ سب کی توجہ ایک بار پھر اپنے سابق نوٹ پر مبذول کروانا چاہتا ہوں۔دوسری طرف سپریم کورٹ نےʼʼ آئین کے آرٹیکل 63 اےʼʼ کی تشریح سے متعلق مقدمہ کے مرکزی فیصلے کے خلاف دائر نظرثانی اپیلوں کی سماعت کا حکمنامہ جاری کر دیاہے، دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس معاملہ پر غور کے لئے سپریم کورٹ ( پریکٹس اینڈ پرسیجر )کمیٹی کا اجلاس طلب کر لیا گیا،یہ اجلاس آج صبح نو بجے سپریم کورٹ میں ہو گا۔
اسلام آباد انسداد دہشت گردی عدالت کے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین نے تھانہ کوہسار کے مقدمہ میں گرفتار بانی...
اسلام آباد مجوزہ آئینی ترامیم کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک نئی آئینی درخواست دائر کر دی گئی ہے ،درخواست گزار...
اسلام آباد اعلیٰ ترین حکومتی ذرائع نے تحریک انصاف یا گنڈاپور سے اسٹیبلشمنٹ کی پس پردہ بات چیت کی سختی سے...
کراچی جیو کے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے ن لیگ کے رہنما طلال چوہدری نے...
کراچی چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ انہیں جسٹس منصور علی شاہ پر اعتماد نہیں کہ...
اسلام آباد پاکستان بار کونسل کی ایگزیکیٹیو کمیٹی کے چیئرمین ریاضت علی سحر نے کہا کہ میڈیا پر پاکستان بار...
صوابی صوابی کے پہاڑی علاقے گدون امازئی کے گاؤں گندف بار کلی میں پاکستان ائیر فورس کا تربیتی جہاز فنی خرابی...
اسلام آباد شوگر ایڈوائزری بورڈ نےپانچ لاکھ میٹرک ٹن چینی برآمد کرنے کی مشروط اجازت دے دی ہے ، آج بدھ کو ای...