آرٹیکل 63 ای کیس کا فیصلہ کالعدم قرار، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی نظر ثانی اپیل متفقہ منظور، پی ٹی آئی نے عدالتی کارروائی سے علیحدگی اختیار کرلی

04 اکتوبر ، 2024

اسلام آباد (اے پی پی)سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 63 اے سے متعلق کیس کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔جمعرات کو عدالت عالیہ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بینچ نے آئین کے آرٹیکل 63اے کی تشریح سے متعلق نظر ثانی اپیلوں پر سماعت کی۔دوران سماعت پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیئے تاہم بعد ازاں انہوں نے بینچ کی تشکیل پر اعتراض اٹھاتے ہوئے سماعت کا حصہ بننے سے انکار کر دیا جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیئے۔چیف جسٹس نے نظرثانی اپیل کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی نظرثانی اپیل متفقہ طور پر منظور کی جاتی ہے، کیس کا تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے کیس پر جسٹس مظہر عالم کا اختلافی نوٹ 30 جولائی کو آیا جبکہ بینچ کی اکثریت نے تفصیلی فیصلہ 14 اکتوبر کو جاری کیا، جسٹس مظہر عالم کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس تھا۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ ووٹ ڈالنے اور شمار ہونے میں فرق ہے۔ کیا آئین میں ووٹ ڈالنے اور شمار ہونے کا فرق لکھا ہوا ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ آرٹیکل 63 اے پر فیصلہ تضادات سے بھرپور ہے، ایک طرف کہا گیا ووٹ بنیادی حق ہے، ساتھ ہی بنیادی حق پارٹی کی ہدایت پر ختم بھی کر دیا۔پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا حسبہ بل کیس کے مطابق ریفرنس پر رائے جس نے مانگی اس پر رائے کی پابندی لازم ہے۔ علی ظفر نے کہا کہ عدالتوں نے تشریح کرکے سیاسی جماعتوں کو الیکشن کا اہل قرار دیا، بعد میں اس حوالے سے قانون سازی بھی ہوئی لیکن عدالتی تشریح پہلے تھی، عدالت کی اس تشریح کو آئین دوبارہ تحریر کرنا نہیں کہا گیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جج کون ہوتا ہے یہ کہنے والا کہ کوئی رکن منحرف ہوا ہے، پارٹی سربراہ کا اختیار ہے وہ کسی کو منحرف ہونے کا ڈیکلریشن دے یا نہ دے، ارکان اسمبلی یا سیاسی جماعتیں کسی جج یا چیف جسٹس کے ماتحت نہیں ہوتیں، سیاسی جماعتیں اپنے سربراہ کے ماتحت ہوتی ہیں۔جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ پارلیمانی پارٹی کے سربراہ کا انتخاب کون کرتا ہے، علی ظفر نے جواب دیا کہ ارکان پارلیمان اپنے پارلیمانی لیڈر کا انتخاب کرتے ہیں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ووٹ کرنے کا حق تو رکن پارلیمنٹ کا ہے، یہ حق سیاسی جماعت کا حق کیسے کہا جاسکتا ہے، علی ظفر نے کہا کہ اسی مقصد کیلئے پارلیمانی پارٹی بنائی جاتی ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایک پارٹی سربراہ کا اختیار ایک جج استعمال کرے تو کیا یہ جمہوری ہوگا، جج تو منتخب نہیں ہوتے، انحراف کے بعد کوئی رکن معافی مانگے تو ممکن ہے پارٹی سربراہ معاف کردے، علی ظفر نے جواب دیا کہ تاریخ کچھ اور کہتی ہے۔علی ظفر نے کہا کہ 63 اے کے فیصلے میں لکھا ہے ہارس ٹریڈنگ کینسر ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ یہ غلط الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، جج صرف یہ طے کر سکتا ہے کوئی چیز آئینی و قانونی ہے یا نہیں، یہ کوئی میڈیکل افسر ہی بتا سکتا ہے کینسر ہے یا نہیں۔علی ظفر نے کہا کہ ارکان اسمبلی کو ووٹ دینے یا نہ دینے کی ہدایت پارلیمانی پارٹی دیتی ہے، پارلیمانی پارٹی کی ہدایت پر عمل نہ کرنے پر پارٹی سربراہ نااہلی کا ریفرنس بھیج سکتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اس حساب سے تو پارٹی کے خلاف ووٹ دینا خودکش حملہ ہے، ووٹ بھی شمار نہیں ہوگا اور نشست سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا، اگر کوئی پارٹی پالیسی سے متفق نہ ہو تو مستعفی ہوسکتا ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان نے استفسار کیا اگر صدر مملکت رائے پر عمل نہ کرے تو کیا ان کےخلاف کارروائی ہو سکتی ہے؟ جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ عدالت صدر مملکت کےخلاف کارروائی نہیں کر سکتی۔فاروق ایچ نائیک نے منحرف رکن سے متعلق تحریک انصاف کی عائشہ گلالئی کیس کا حوالہ دیا۔ وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ 63 اے کیس میں اقلیتی ججز کا فیصلہ پہلے جاری ہوا۔سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیس کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے متفقہ طور پر نظرثانی درخواستیں منظور کر لیں۔