اقلیتوں کی ابتر صورتحال،امریکہ بھارت کو ”خصوصی تشویش کا حامل ملک“ قرار دے، امریکی کمیشن مذہبی آزادی

04 اکتوبر ، 2024

واشنگٹن (اے پی پی) امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف)نے بھارت میں مذہبی آزادی کی مسلسل ابتر صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے محکمہ خارجہ پر زور دیا ہے کہ وہ بھارت کو ”خصوصی تشویش کا حامل ملک“ قرار دے۔تفصیل کے مطابق یو ایس سی آئی آر ایف نے 2024کی اپنی سالانہ رپورٹ میں عام انتخابات کے دوران سرکردہ حکومتی رہنماو ں کی اشتعال انگیز بیان بازی کا حوالہ دیا ہے جس سے مسلمانوں اور عیسائیوں پر حملوں میں اضافہ ہوا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ رواں برس جنوری سے مارچ تک عیسائیوں کے خلاف تشدد کے 161 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جن میں سے 47 ریاست چھتیس گڑھ میں پیش آئے۔ اتر پردیش میں جون اور جولائی میں 20 عیسائیوں کو جبری تبدیلی مذہب کے الزام میں حراست میں لیا گیا۔ انتخابی نتائج کے بعد مسلمانوں کو نشانہ بنائے جانے کے کم ازکم 28 واقعات درج ہوئے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ عام انتخابات کے دوران سیاسی عہدیداروں نے مسلمانوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر اور امتیازی بیانات میں تیزی لائی۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ مارچ میں اقوام متحدہ کے ماہرین کے ایک گروپ نے پارلیمانی انتخابات سے قبل مذہبی اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد اور نفرت انگیز جرائم پر تشویش کا اظہار کیا تھاجس میں تشدد، ٹارگٹ کلنگ، املاک کو مسمار کرنا اور ہراساں کرنا شامل تھا۔یو ایس سی آئی آر ایف نے کہا کہ حکومتی عہدیداروں کی جانب سے نفرت انگیز تقاریر مذہبی اقلیتوں پرحملوں کا باعث بن رہی ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ مسلمانوں کی املاک کی مسماری کا سلسلہ بھی جاری رہا جس کی ایک مثال دہلی میں ایک 6سو برس پرانی مسجد کی فروری میں بغیر کسی نوٹس کے مسماری ہے جس سے بڑے پیمانے پر غم و غصہ پھیل گیا۔ رپورٹ میں وقف ترمیمی بل 2024کا حوالہ بھی دیا گیا جس کا مقصد مسلمانوں کی وقف املاک پر قبضہ جمانا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارتی حکومت تبدیلی مذہب کے قوانین، گائے کے ذبیحہ کے قوانین اور انسداد دہشت گردی جیسے قوانین کے نفاذ کے ذریعے مذہبی برادریوں پر جبر اور پابندیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔یو ایس سی آئی آر ایف کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھارتی حکام نے ایسے افراد کو حراست میں لیا ہے جو مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کے خلاف آواز اٹھاتے رہے جن میں مذہبی رہنما، صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن شامل ہیں۔