آئینی ترامیم کی راہ ہموار، منحرف رکن کا ووٹ شمار ہوگا، آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ کالعدم

04 اکتوبر ، 2024

اسلام آباد(نیوز ایجنسیاں/ مانیٹرنگ ڈیسک) آئینی ترامیم کی راہ ہموار ہوگئی ،منحرف رکن کا ووٹ شمار ہوگا،سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور سپریم کورٹ بار کی نظر ثانی درخواست متفقہ منظورکرلی گئی ،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جج کون ہوتا ہے کسی رکن کو منحرف کہنے والا یہ پارٹی سربراہ کا اختیار ہے،جج کو اپنے دائرہ اختیار میں رہنا چاہیے،تاریخ یہ ہے مارشل لاء لگے تو سب ربڑ اسٹمپ بن جاتے ہیں،وکیل بانی پی ٹی آئی علی ظفر نے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا،ان کا کہنا تھا کہ بطور عدالتی معاون دلائل دیئے،پارلیمانی پارٹی فیصلہ کی خلاف ورزی پر سربراہ نا اہلی ریفرنس بھیج سکتا ہے۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق نظر ثانی اپیلوں پر سماعت کی۔پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیے تاہم بعد ازاں انہوں نے بینچ کی تشکیل پر اعتراض اٹھاتے ہوئے سماعت کا حصہ بننے سے انکار کر دیا جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیے۔چیف جسٹس پاکستان نے نظرثانی اپیلی کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی نظرثانی اپیل متفقہ طور پرمنظورکی جاتی ہے، کیس کا تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔وکیل علی ظفر نے کہا کہ حکومت آئینی ترمیم لا رہی ہے اور تاثر ہے عدالت ہارس ٹریڈنگ کی اجازت دے گی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اب آپ حد کراس کر رہے ہیں، ہم اس بات پر آپ کو توہین عدالت کا نوٹس کرسکتے ہیں، کل آپ نے ایک طریقہ اپنایا، آج دوسرا طریقہ اپنا رہے ہیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم آپ کی عزت کرتے ہیں، آپ ہماری عزت کریں، ہارس ٹریڈنگ کا کہہ کر بہت بھاری بیان دے رہے ہیں، ہارس ٹریڈنگ کیا ہوتی ہے؟ آپ کو ہم بتائیں تو آپ کو شرمندگی ہوگی۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم ہارس ٹریڈنگ کی اجازت دے رہے ہیں۔علی ظفر نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کا فیصلہ ہارس ٹریڈنگ کو روکتا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتوں کا مذاق بنانا بند کریں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عدالت نے 63 اے پر اپنی رائے دی تھی کوئی فیصلہ نہیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ ووٹ ڈالنے اور شمار ہونے میں فرق ہے، کیا آئین میں ووٹ ڈالنے اور شمار ہونے کا فرق لکھا ہوا ہے؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ آرٹیکل 63 اے پر فیصلہ تضادات سے بھرپور ہے، ایک طرف کہا گیا ووٹ بنیادی حق ہے، ساتھ ہی بنیادی حق پارٹی کی ہدایت پر ختم بھی کر دیا۔پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا حسبہ بل کیس کے مطابق ریفرنس پر رائے جس نے مانگی اس پر رائے کی پابندی لازم ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا اگر صدر مملکت رائے پر عمل نہ کرے تو کیا ان کےخلاف کارروائی ہو سکتی ہے؟ جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ عدالت صدر مملکت کےخلاف کارروائی نہیں کر سکتی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس حساب سے تو پارٹی کیخلاف ووٹ دینا خودکش حملہ ہے، ووٹ بھی شمار نہیں ہوگا اور نشست سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا، اگر کوئی پارٹی پالیسی سے متفق نہ ہو تو مستعفی ہو سکتا ہے؟علی ظفر نے کہا کہ یہ امید ہوتی ہے کہ شاید ڈی سیٹ نہ کیا جائے اور نشست بچ جائے، عدالت نے قرار دیا کہ کسی کو ووٹ کے حق کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھانے دیں گے۔جسٹس نعیم اختر افغان نے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی نے اپنے دور میں ووٹ نہ گنے جانے کے حوالے سے قانون سازی کیوں نہ کی؟ تحریک عدم اعتماد آنے والی تھی، اس وقت سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کر دیا گیا، اس وقت پارلیمنٹ کی جگہ سپریم کورٹ کو استعمال کرنے کی کوشش کی گئی۔چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ 63 اے کا فیصلہ صرف ایک جج کے مارجن سے اکثریتی فیصلہ ہے، کیا ایک شخص کی رائے پوری منتخب پارلیمان پر حاوی ہے؟ جس پر علی ظفر نے جواب دیا کہ پارلیمان کو اگر یہ تشریح پسند نہ ہو تو وہ کوئی دوسری قانون سازی کر سکتی ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایک بندہ سوچتا رہے میں فلاں فلاں کو قتل کروں گا مگر کرے نہ تو کیا سزا ہوگی؟ کیا میں سرخ اشارہ محض توڑنے کا سوچوں تو کیا میرا چالان ہو سکتا ہے؟چیف جسٹس نے کہا کہ جمہوریت اس لئے ڈی ریل ہوتی رہی کہ یہ عدالت غلط اقدامات کی توثیق کرتی رہی۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے معاملہ صدر مملکت کو بھجوانے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ آئینی درخواستیں بھی ریفرنس کے ساتھ ہی نمٹائی گئی ہیں، آئینی درخواستیں نمٹانے کا معاملہ صدر مملکت کو نہیں بھیجا جا سکتا، سپریم کورٹ قرار دے چکی کہ ریفرنس پر آنے والے رائے کی ریاست پابند ہوگی، ریاست سپریم کورٹ کی رائے کی پابند ہوتی ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا اگر کوئی رکن ووٹ نہ ڈالے تو وہ بھی نااہل ہوسکتا ہے، ہو سکتا ہے جماعت کا سربراہ رکن کے نہ پہنچنے کی وجہ تسلیم کر لے، آرٹیکل 63 اے واضح ہے تو اس کی تشریح کی کیا ضرورت ہے، سپریم کورٹ میں منحرف اراکین کی اپیلیں بھی آنی ہوتی ہیں، اگر عدالتی فیصلہ ہی نااہلی کا باعث بنے تو اپیل غیر موثر ہو جائے گی۔بعدازاں سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے سے متعلق فیصلہ کالعدم قرار دے دیتے ہوئے نظرثانی اپیلیں منظور کر لیں۔